Thursday, February 2, 2012

ہم تو اس ’’فیشن‘‘ کے ہاتھوں مرچلے


 ’’فیشن‘‘ ایک نہایت ہی چمکیلا اور بھڑکیلا لفظ ہے جس کے بغیر آج کے سارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ادھورے ہیں۔ پہلے ہم آپ کو فیشن کی تعریف بتادیں (آج کے زمانے کے مطابق) ’’فیشن‘‘ پر اس آڑھے ٹیڑھے ، عجیب و غریب حلیے کے اپنانے کو کہا جاتا ہے جسے کوئی بھی شریف آدمی اپنانے میں شرم محسوس کرے۔ مثلاً پھٹی ہوئی جینز ، چست سے چست تر کپڑے عجیب و غریب بال وغیرہ وغیرہ۔
آج کل آپ جس طرف نظراٹھایئے لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان فرق کرنامشکل ہوتا جارہا ہے،ہاں لڑکیاں ایک بار اپنے برقعوں کے ذریعے پہچان لی جاتی ہیں مگر لڑکے وہ ذرا مشکل سے سمجھ میں آتے ہیں کیونکہ انہوں نے ’’فیشن‘‘ میں بال لمبے کرنا شروع کردیے ہیں ان کے کپڑے بھی لڑکیوں کی طرح فٹنگ میں ہوتے ہیں۔ ہاتھوں تک میں مختلف بینڈز پہنے ہوتے ہیں( تاکہ چوڑیوں کی کسر نہ رہ جائے)
لڑکے بچارے ! قدرت نے ان کے لیے زیادہ مواقع ہی نہیں رکھے ہیں سجنے ، سنورنے کے مگر وہ اپنی طرف سے مقدور بھر کوشش کرتے ہیں فیشن کرنے کے اور زمانے کے ساتھ چلنے کے ۔مگر لڑکیاں بھلا انہیں کون روک سکتا ہے وہ تو سجنے سنورنے اور فیشن کرنے کا پیدائشی حق لے کر آئی ہیں تو وہ خوب سج رہی ہیں سنور رہی ہیں اور سڑکوں پر بے پردہ گھوم کر غیروں کے لیے لذت نظارہ مہیا کررہی ہیں کہ بھئی وہ اتنا تیار ہی اسی لیے ہورہی ہیں کہ دوسرے دیکھیں اور سراہیں۔
آج آپ کو بنی سنوری ماڈلز دیکھنے کے لے کسی فیشن شو میں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ یونہی آس پاس نظر دوڑایئے ہزاروں نظر آجائیں گی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ والدین کس طرح اپنی بیٹیوں کو بے پردہ باہر نکلنے کی اجازت دیتے ہیں۔
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبرؔ زمین میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو بیبیوں سے پردہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ مردوں کی عقلوں پہ پڑ گیا
نظر اکبرؔ آبادی
بے چارے نظیر اکبرؔ آبادی! ان کے زمانے میں چند بیبیاں بے پردہ نظر آتی تھیں اور اب تو چند ہی با پردہ نظر آتی ہیں۔ مگر نہیں اب تو باپردہ بھی ہونے لگیں ہیں کیونکہ بازاروں میں اتنے اسٹائلش برقعے جو آگئے ہیں۔ اتنے کام والے برقعے کہ کیا کوئی کپڑا بھی ہوتا ہوگا۔ کچھ تو دھوپ میں چمکتے بھی ہیں کہ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں کچھ اتنے چست اور پتلے ہوتے ہیں کہ ’’صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں‘‘ والا معاملہ ہوجاتا ہے۔
یہ سب کچھ دیکھ کر اس قدر افسوس ہوتا ہے کہ بیان سے باہر ہے کہ یہ وہی مسلم قوم ہے جس کی ایک خاتون کو جب بیٹے کے شہید ہونے کی اطلاع ملی تو انہوں نے پہلے حجاب لیا پھر بیٹے کے آخری دیدار کے لیے نکلیں۔ لوگوں نے جب ان کے عمل پر حیرت کا اظہار کیا تو انہوں نے جواب دیا ’’میں نے بیٹا کھویا ہے حیا نہیں‘‘ سبحان اللہ!
دراصل بات یہ ہے کہ ہماری نئی نسل اپنی بنیادی تعلیم سے ہی واقف نہیں ہے۔ انہیں صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ مسلمان ہیں مگر بحیثیت مسلمان انہیں کس طرح رہنا ہے یہ انہیں نہیں بتایا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ اندھا دھند غیروں کی نقالی کیے جارہے ہیں۔ ذرا غور کیجیے جس لڑکی کو بچپن سے ایسے کپڑے پہنائے جائیں گے جس سے اس کا جسم پوری طرح ڈھکا نہ ہوگا اور بڑے ہوکر اسے پردہ کرنے کوکہا جائے گا تو کیا وہ اس پر عمل کرے گی، ظاہر ہے کہ نہیں۔
اس کے علاوہ پوری دنیا میں میڈیا کے ذریعے اسلام ، پردے اور داڑھی کی اس قدر خراب شبیہہ پیش کی جارہی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو خود کو مسلمان بتاتے ہوئے شرم آنے لگی ہے اور وہ پوری کوشش یہی کرتے ہیں کہ ان کے حلیے سے یہ بات ظاہر نہ ہوپائے کہ وہ مسلمان ہیں۔
ٹرین میں، ہوٹل میں یا کسی بھی عوامی جگہ با پردہ چلے جایئے تو تمام لوگ نہایت ہی ہمدردی سے دیکھتے ہیں۔ انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں کتنا قید کرکے رکھا جارہا ہے۔ وہ یہ سوچ ہی نہیں سکتے کہ کوئی عورت خوشی سے باپردہ رہ سکتی ہے اور تو اور ہمیں تو کئی مسلمانوں تک نے مشورہ دیا ہے کہ اسلام میں اتنی سختی نہیں ہے بھئی ہم تو بے ہوش ہوجائیں گے اتنا موٹا برقعہ پہن کر اور ایک تو ہمارے ملک میں گرمی بھی تو کتنی ہے۔ استغفراللہ! کیا صحابیات کے گھروں میں اے سی لگے ہوئے تھے جو وہ مکمل پردہ کرتی تھیں۔
جب کہ پردہ اسلامی شریعت کا طرۂ امتیاز اور مسلمانوں کی قابل فخر دینی روایت ہے۔ دختران اسلام کو اس سلسلے میں شرمندگی محسوس کرنے کے بجائے فخریہ انداز میں خواتین عالم کے سامنے اس کی دعوت پیش کرنی چاہیے تاکہ دنیا بھر کی عورتیں اس کی برکات سے مستفید ہوسکیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی جی ہا ں ! مسلمانوں کو بھی دین اسلام کی صحیح تعلیم سے آگاہ کیا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ پردے کا شرعی حکم عورت کی عزت وا کرام اور اس کے وقار کے پیش نظر دیا گیا نہ کہ اس کا مقصد عورتوں پر پابندی لگانا یا انہیں مردوں سے کم تر دکھانا ہے۔ حدیث رسولؐ ہے۔
انساء شقائق الرجال (ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
عورتیں انسان ہونے میں مردوں کے برابر ہیں ۔
ہمیں یہ بات لوگوں کو سمجھانی ہیں کہ پردہ شرعی حکم ہونے کے ساتھ ساتھ عورت کی عزت و تکریم کی علامت اور عقل و فطرت کے عین مطابق ہے۔ قرونِ اولیٰ میں خواتین اسلام کے لازوال کارنامے اس بات کا ثبوت ہیں کہ پردہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہرگز نہیں ۔
صفیہؓ بنت عبدالرحمن کے جنگی کارنامے ’’عائشہؓ صدیقہ کا علمی و ادبی مقام و مرتبہ، حفصہ بنت سرین اور ام الدرداء الصغریٰ کا علوم دین سے شغف ، عائشہ بنت عبدالرحمن کا شعر و سخن سے لگاؤ یہ تمام تاریخ اسلام کے زریں ابواب ہیں۔ نیز زبیدہ ایک مسلم خاتون کا ہی رفاہی کارنامہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تاریخی ابواب سے واقفیت حاصل کی جائے۔
اس کا مطلب یہ ہرگز ہرگز نہیں ہے کہ ہم لڑکیوں کے سجنے سنورنے یا ’’فیشن‘‘ کرنے سے منع کررہے ہیں آپ بالکل شوق سے سجئے سنوریے مگر ایک حد میں۔ آپ کنواری ہیں تو آپ کو زیب نہیں دیتا کہ آپ اپنے آٖ پکو سجا سنوار کر دوسروں کے لیے لذت نظارہ مہیا کریں اور اگر آپ شادی شدہ ہیں تو سجئے خوب فیشن کیجیے مگر صرف اپنے خاوند کے لیے اور اگر باہر نکلیں تو اپنی زینت کو چھپا کر اور فیشن بھی ایسا ہو کہ اپنی حد میں ہو اور خوبصورت بھی لگے تو پھر کیا کہنے۔ واہ بھئی واہ ہوجائے گا دنیا میں بھی آخرت میں بھی۔ کیونکہ یہ بات تو ہمارے خیال سے تقریباً سبھی لوگوں کو معلوم ہوچکی ہوگی کہ بڑھتے ہوئے جرائم کا سب سے بڑا سبب بے پردگی ہے۔ مگر کیا کہنے آج کی عورتوں کی ڈھٹائی کے کہ وہ آدمیوں سے کہتی ہیں کہ خود کو قابو میں رکھیں ہم تو جیسا جی چاہیں گے ویسا گھومیں گے۔ استغفراللہ ۔ اللہ ان لوگوں کو ہدایت سے نوازے۔ آمین
ہم تمام لوگوں کا فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بچپن سے ہی اسلام سے مکمل طور سے آگاہ کرتے رہیں۔ انہیں بچپن سے ہی ساتر لباس پہننے اور باوقار رہنے کی عادت ڈالیں تاکہ وہ بڑے ہوں تو بحیثیت مسلمان خود پر فخر کریں تاکہ شرم کی وجہ سے دوسروں کے جیسا حلیہ اپنالیں۔ کیونکہ یہ دنیا تو عارضی ہے ہمیں تو آخرت میں اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہے اور اللہ کو نہ صرف ماننا اسلام ہے بلکہ اللہ کی ماننا اسلام ہے۔ اللہ کی بندگی کا اظہار صرف اس طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی مکمل اطاعت کی جائے اور اس کی منع کردہ اشیاء سے مکمل اجتناب کیا جائے تب ہی مکمل کامیابی مل سکتی ہے۔ کیوں آپ ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش گے ناں ؟ (انشاء اللہ تعالیٰ)
ٓانصاری صادقہ طارق
ممبئی

No comments:

Post a Comment