Thursday, March 1, 2012

نپولین تم ہار گئے

عرب انقلابات کے تناظر میں نیو یارک ٹائمس کے ایک تبصرہ نگار اسکاٹ شانے نے لکھا ہے کہ پچھلی دو دہائیوں سے القاعدہ کے لیڈروں نے اپنی پر تشدد تحریک کے ذریعے جن مغرب نواز عرب ڈکٹیٹروں کو بے دخل کرنے کے لئے جہاد بلند کر رکھا تھا،عرب عوام پر امن احتجاج اور مظاہروں کے ذریعے انہیں اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا اور پھر سوال اٹھایا ہے کہ کیا عربوں کے اس عوامی انقلاب کی وجہ سے القاعدہ کی تحریک اپنا اعتبار کھو دے گی ؟مصنف نے جارج ٹاؤن یونیور سٹی سے منسلک اور سی آئی اے کے ایک سابق مشیر پال آرپلر کا خیال ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ انقلاب القاعدہ کے لئے اس لئے بھی تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ اب عرب نوجوانوں کو دہشت گردی کی متبادل تصویر نظر آنے لگی ہے۔
کیا مغربی میڈیا ان کے سیاست دانوں اور دانشوروں کا اپنا حقیقی خیال ہے یا پھر جس افسانے کو وہ مکمل کرنے سے قاصر رہے ہیں اسے ایک خوبصورت موڑ دیکر حالات پر چھوڑ دینے کیلئے مجبور ہیں ۔جو لوگ ماضی اور حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں ان کا خیال ہے کہ اشتراکیت کے دم توڑ نے اور سوویت یونین کے منتشر ہوجانے کے ساتھ ہی مغرب میں اخلاقی و روحانی بحران کا ایک نیا دور شروع ہوا۔مسیحیت نے تجدید کاری کے نام پر ایک نئے اخلاقی نظام کو عام کرنے کی کوشش تو کی لیکن مغربی مفکرین ،مبصرین آج بھی یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ ان کے اجتماعی و معاشی زندگی کے بنیادی اصول درست ہیں یا نہیں؟ اور یہ سچ بھی ہے اور دکھائی بھی دے رہا ہے کہ مغرب کے اخلاقی اور روحانی بحران نے انہیں معاشی زوال میں بھی قید کر دیا ہے ،اس لئے موجودہ لبرل جمہوری سرمایہ دارانہ نظام کیلئے دنیا پر اپنی بالادستی قائم کرنا تو دور کی بات خود جزیرہ یوروپ میں اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے اور اب ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ اخوان المسلمون اور القاعدہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیں ۔جبکہ دونوں کے بنیادی نظریات میں اول دور سے یہ بات شامل رہی ہے کہ عرب حکمران یا تو اقتدار چھوڑ دیں یا شرعی قوانین کا نفاذ کریں ۔اسلامی دنیا کے کچھ علماء دین کا بھی خیال یہ ہے کہ متشدد اسلامی فکر کسی زمانے میں کامیاب نہیں ہوئی جیسا کہ العربیہ ٹی وی کو ایک خصوصی انٹر ویو دیتے ہوئے مصر کے مفتی اعظم اور ممتاز عالم دین الشیخ علی جمعہ نے کہا ہے کہ سخت گیر اسلامی شریعت کی دنیا میں اس وقت کوئی مثال موجود نہیں ۔القاعدہ اور طالبان اسلام کے سخت گیر خیالات کے حامل گروہ تھے لیکن اب وہ بھی ختم ہو چکے ہیں اور انہیں بھی یہ اندازہ ہو گیا ہوگا کہ انہوں نے جو راستہ اختیار کیا تھا غلط تھا ۔اس کے برعکس عرب کے مشہور عالم دین ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اپنی کتاب ’’غلبہ اسلام کی بشارتیں میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں ایسی ہستیوں کو پیدا کیا ہے جو دین کی تجدید و اصلاح کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ دعوت و تبلیغ کے ذریعے دینی و اصلاحی تحریکات کی کاوشیں صدا بصحرا ثابت ہوئیں یا ان کی حیثیت راکھ کے ڈھیر میں پوشیدہ کسی چنگاری کی رہی ہے بلکہ مغرب و مشرق میں ان تحریکوں نے جہاں لوگوں کے اندر اصلاحی بیداری کی لہر پیدا کی ،جہادی سطح پر بھی اصلاحی بیداری نے اپنے وجود کو منوالیا ہے۔افغانستان میں اس نے سوویت یونین پر غلبہ حاصل کرلیا ۔بوسنیا ہرزے گووینا میں وحشی صربوں کو پست ہونا پڑا ۔تحریک انتفاضہ اور اس کے جیالوں نے اس صہیونی حکومت کے دانت کھٹے کر دیئے جس کے بارے میں یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ اسے کوئی جھکا نہیں سکتا اور اس کے حصار کو کوئی توڑ نہیں سکتا۔
جو لوگ تاریخ کے طالب علم ہیں وہ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ عربوں میں جو اسلامی بیداری اور تبدیلی کا رجحان دکھائی دے رہا ہے یہ اچانکبو عزیزی کی چیخ و پکار یا ایک مہینے یا دہائی کے پر امن احتجاج کی بدولت نہیں واقع ہوا ہے بلکہ اس انقلاب کے لئے بہت سی شخصیتوں اور تحریکوں نے بے مثال قربانی پیش کی ہے ۔جسکی تازہ مثال اخوان المسلمون ہے،جسے شہید حسن البناء نے مصر میں قائم کیا تھا اور انہوں نے متشدد اور معتدل اسلامی فکر کی بحث میں الجھے بغیر سیاست کے میدان میں خالص اسلام کے فلسفہ انصاف کی نمائندگی کی۔مصر میں انکے علاوہ سید قطب شہید ،شیخ محمد غزالی ،زینب الغزالی اور ہندوستان میں اسمعٰیل شہید،مولانا حمید الدین فراہی،ڈاکٹر علامہ اقبال اور سید ابو الا علیٰ مودودی اسی مکتبہ فکر کے پر وردہ ہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے بعد کے دور میں سر سید احمد خان ،ابو لکلام آزاد اور مولانا شبلی کے مقابلے میں ان شخصیات کو متشدد اسلامی فکر کا ہی حامل سمجھا جاتا تھا۔حالانکہ مغرب کی بے پناہ وسائل اور فوجی قوت کے سامنے تحریکات اسلامی کے ان مجاہدین کی جدوجہد اور قوت و وسائل میں زمین و آسمان کا فرق تھا باوجود اس کے ان مجاہدین کو صرف مغرب کے خلاف اپنی تحریروں اور تقریروں کی وجہ سے وقت کے کمال پاشاؤں کے عقوبت خانوں کی شدت کو برداشت کرنا پڑا۔ آج کی عافیہ صدیقی الزام ہے کہ اس نے امریکی فوجیوں پر گولی چلانے کی کوشش کی تھی ۔مگر زینب الغزالی کو صرف اس لیئے جمال عبد الناصر کے طلم و تشدد کا شکار ہونا پڑا کیوں کہ انہوں نے اپنے حکمرانوں سے صرف آزادی اظہار رائے کا حق مانگا تھا ۔مگر اللہ کے ان بندوں نے مشکل سے مشکل حالات میں بھی نبوی تحریک کی مشعل کو بجھنے نہیں دیا ۔اقبال اسی جذبے کو دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا ......کہا ہے مجھ سے یہ قبطیوں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
ایک ایسے وقت اور حالات میں جبکہ مغربی تہذیب اپنی سائنس اور ٹکنالوجی کی طاقت سے پوری دنیا پر اپنے غلبے اور بالا دستی کا اعلان کر چکی ہو اس کے زوال اور انحطاط کی پیشن گوئی کرنا آسان نہیں تھا لیکن ایسے نازک اور شکشتہ حالات میں اقبال ہی نے یہ کہنے کی جرات کی کہ
تمہاری تہذیب خود اپنے خنجر سے خود کشی کریگی......جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
یعنی نفس پرستی اور خود پرستی اور خود غرضی پر مبنی مادہ پرست تحریکوں کی مثٓل تو خود قرآن نے بھی کلمہ خبیثہ سے دی ہے جسکی جڑیں زمیں میں اس طرح پیوست ہیں کہ اپنا بوجھ بھی سنبھال نہیں پاتیں ۔محمد اسد بیسویں صدی کے ایک ایسے ہی مفکر گزرے ہیں جنہوں نے اپنی کتاب’’ الاسلام فی مفترق الطریق‘‘میں اپنے قرآنی مطالعے کی بنیاد پر ۱۹۳۵ میں ہی دوسری عالمی جنگ کی پیشن گوئی کردی تھی اور یہ بھی لکھا کہ یہ جنگ مغربی تہذیب کی حامی دو مختلف مادہ پرست قوتوں کے درمیان ہوگی اور پھر اس کے بعد کمیونزم کا زوال بھی یقینی ہے۔جس کے بعد تحریکات اسلامی کے کا رواں کا بہت ہی تیزی کے ساتھ اپنے عروج کی طرف بڑھنا شروع ہو جائے گا ۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کی صورت میں کس طرح مغرب کی لبرل تہذیب آپس میں ہی ٹکرا کر خود اپنے لیئے تباہی کا سامان مہیا کرتی ہیں ۔لیکن اسکے باوجود مغرب پوری طرح ختم ہونے کی بجائے دوبڑی فوجی قوت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔اور دونوں ایک دوسرے پر اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیئے تین دہائیوں تک بر سر پیکار رہے۔بالآخر ۱۹۹۰ میں اشتراکیت کے دم توڑنے اور سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد مغرب نے امریکہ کی قیادت میں بہت ہی زور شور سے نیو ورلڈ آرڈر کا اعلان تو کیا مگر اب اس کا مقابلہ اور ٹکراؤ ایک بار پھر ایک ایسی تہذیب اور عقیدے سے تھا جس نے انسانی دنیا پر تقریباً ایک ہزار سال تک اپنے عروج و زوال کی تاریخ رقم کی ہے۔دنیا نے دیکھا کہ ابھی امریکہ اور اس کے اتحادی روس کی بالادستی کو پوری طرح ختم بھی نہیں بھی نہ کر پائے تھے کہ ۸۰ ؁ ء کی دہائی میں ایران کے اسلامی انقلاب نے صدائے وحدہ لا شریک کا اعلان کر دیا ۔۱۹۹۵ کے دوران افغانستان میں طالبان کا غلبہ اور پھر ۱۱ ؍ستمبر ۲۰۰۱ میں چند گمنام طیاروں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت کو ٹھوکر مارکر نیو ورلڈ آرڈر کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی امریکہ نے اس کا الزام اسامہ بن لادن اور انکی تنظیم القاعدہ پر عائد کرتے ہوئے ایک ایسے علاقے میں اپنی اور اپنے اتحادیوں کی فوج کو مرنے کیلئے بھیج دیا جسے تاریخ میں دنیا کا دوسرا جزیرہ برموڈہ کہا جاتا ہے۔جہاں پر ایک بار داخل ہونے کے بعد انسانی دماغ اور ٹکنالوجی کی ساری طاقت کام کرنا بند کر دیتی ہے۔ان دس سالوں میں افغانستان کے ملاؤں اور بنجاروں کی فوج نے امریکہ کی جو حالت کی ہے امریکی عوام نہ صرف جارج بش کے نام سے نفرت کرنے لگے ہیں ۔موجودہ صدر ابامہ کو اپنی چال ڈھال اور آواز کو بدلنے پر مجبور ہونا پڑا ۔تاریخ گواہ ہے کہ جس نپولین نے مصر میں داخل ہو کر فاتحانہ انداز میں یہ کہا تھا کہ ’’اے صلاح الدین ایوبی دیکھو ہم ایک بار پھر تمہاری سرحدوں میں داخل ہو چکے ہیں ، اس بار ہم واپس جانے کے لئے نہیں آئے ہیں کیوں کہ اس بار ہم نے ایسے آتشیں ہتھیار جمع کر لئے ہیں جس کا مقابلہ کرنا تمہاری اولادوں کی طاقت کے باہر ہے ۔اسی ملک میں سپر پاور کا حکمراں عالم اسلام سے مخاطب ہوکر اپنی اور دنیا کی سلامتی کی اپیل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مسلمانوں ہم تمہارے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں ۔ہم کسی تہذیب پر نہ تو اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اسلامی تہذیب کے درمیان کسی طرح کی روکاوٹ پیدا کرنے کا عزم رکھتے ہیں ۔ہم عراق سے بہت جلد اپنی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کر چکے ہیں اور افغانستان میں اگر اعتدال پسند طالبان سامنے آتے ہیں تو ان سے گفتگو کرنے کے لئے بھی تیار ہیں ۔سوال یہ ہے کہ وہ لوگ جو عورتوں کے حجاب اور مردوں کی داڑھی تک کو مغرب کے لئے خطرہ سمجھتے تھے وہ لوگ اعتدال پسند طالبان اور اخوا ن المسلمون کے سیاسی نظرئے کو قبول کرنے کو تیار کیوں ہیں ؟اگر سخت گیر طالبان منظر عام پر نہ آئے ہوئے ہوتے اور مغرب کو کسی طرح کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا ہوتا ۔امریکی معیشت کے ڈھانچے میں دراڑ نہ واقع ہوئی ہوتی تو کیا پھر بھی نیو ورلڈ آرڈر کے علمبرداروں کی چال ڈھال اور زبان میں وہی فرق واقع ہوا ہوتا جو ہم دیکھ اور سن رہے ہیں؟ سوال یہ بھی نہیں کہ عرب میں انقلابات کے آنے کا طریقہ کار کیا ہے ،سوال یہ ہے کہ نپولین کو شکشت کیو کر ہوئی؟؟
عمر فراہی۔موبائل،09699353811

Meeting and Felicitation of Dr. Gulam Anjum Yahya (Dean, Hamdard University)


دینی بیداری پیدا کرنے کے لئے مختصر مدتی کورس کی ضرورت ہے ۔
علیمی مو و منٹ کی استقبالیہ نشست میں پروفیسر غلام یحیٰ انجم کا اظہار خیا ل
موجودہ زمانہ مشینی زندگی کا تیز رفتار زمانہ ہے سائنس و ٹکنالوجی نے دنیا کو تقریباً اپنی گرفت میں لے لیا ہے اس بھاگ دوڑ کے زمانے میں بھی عوام الناس کا اپنے خالق حقیقی کی طر ف متوجہ ہونا اور عبادت وریاضت میں مشغول ہوکر اپنے رب کو راضی کرنے کی تگ ودو کرنا یقیناًاس دور کے اہم تقاضوں میں سے ایک ہے لہذا موجودہ زمانے کے اہم وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علماء ربانین کو بھی چاہیئے کہ ان بندگان حق کی اس انداز میں تربیت کریں کہ ان کا رشتہ زندگی کے تمام مراحل میں ان کے رب سے مربوط رہے ان باتوں کا اظہار خیال پروفیسر غلام یحیٰ انجم (ڈین فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز اور سوسل سائنسیزہمدرد یونورسٹی دہلی ) نے کیا ۔
آپ نے مزید فرمایا کہ اس کی کیا شکلیں ہیں یا کیا ممکنہ شکلیں ہوسکتی ہیں ۔ اس موضوع پر علما ء کو سر جوڑ کر سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سا بہتر طریقہء کار ہوگا جس میں کم سے کم اوقات میں مساجدومدارس کے پلیٹ فارم سے بندگان حق کو زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کیا جاسکے ۔ اس سلسلے میں مورخہ ۲۹ فروری بعد نماز ظہر علیمیہ آفس مصطفی بازار ممبئی نمبر ۱۰ میں پروفیسر غلام یحیٰ انجم کی آمد پر علیمی موومنٹ کے زیر اہتمام ایک مشاورتی مٹنگ۔ علیمی موومنٹ کے سرپرست اعلیٰ مولانا معین الحق علیمی صاحب اور صدر مولانا محمد عرفان علیمی کے علاوہ مولانا وارث جمال قادری (صدر آل انڈیا تبلیغی سیرت ممبئی ) جناب عامر ادریسی ( صدر آل انڈیا مسلم یوتھ موومنٹ ممبئی ) زبیر رضوی ( انجمن فیض رضا ممبئی) کی موجودگی میں ہوئی ۔

پروفیسر غلام یحیٰ انجم صاحب ممبئی یونورسٹی میں منعقد ہونے والے سیمنار میں شرکت کی غرض سے تشریف لائے ہوئے تھے ۔ اس بھاگ دوڑ کی دنیا میں جب کہ کسی کے پاس مذہبی کتابیں پڑھنے اور علما ء کے پاس بیٹھنے کا وقت نہیں کس طرح سے دینی معلومات فراہم کی جا ئے ۔ اس موضوع پر علماء نے سنجیدگی سے غور کیا نیز مختلف تجاویز زیر غور آئیں اور ابھی اس سلسلے میں کئی ایک مٹنگ کی ضرورت ہے ۔ تاکہ مناسب حل تلاش کیا جاسکے ۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا مجھے امید ہے کہ علاء اکر ام کے مشوروں سے مستقبل میں کوئی نہ کوئی حل اس کے بابت ضرور تلاش کیا جاسکے گا۔ انشاء اللہ

Thursday, February 23, 2012

سیاست کو مافیا سے بچائیں


اکثر کہا جاتا ہے کہ سیاست میں اگر اچھے لوگ نہیں آئیں گے تو انہیں برے لوگوں کو جھیلنا ہی ہوگا۔موجودہ صورت حال تو یہ ہے کہ اب تو میونسپل الیکشن بھی وہی لڑسکتا ہے جو بیس سے پچیس لاکھ روپئے خرچ کرنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ممبئی میونسپل الیکشن ابھی حال ہی میں ختم ہوا ہے ۔الیکشن کمیشن نے انتخابی خرچ کی حد کچھ بھی مقرر کی ہو ۔مگر امیدواروں نے الیکشن آفس ،ورکروں کی فوج ،موٹر گاڑیوں ،جلسوں ،بینرس،پوسٹرس اور ہینڈ بلوں پر تو لاکھوں خرچ کیا ہی اس کے علاوہ خفیہ طور پر ووٹوں کے جگاڑ اور ٹکٹ کے حصول کے لئے نہ جانے کتنا خرچ کیا ہوگا اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا ہے۔کانگریس کے سابق کارپوریٹر خان محمد بستی والانے تو اپنی ہی پارٹی پر ٹکٹ کے عوض پچاس لاکھ روپئے کا مطالبہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔پھر سوچئے کہ اسمبلی اور لوک سبھا کے الیکشن لڑنے کے لئے تو قارون کا خزانہ پاس میں ہونا چاہئے۔جن کے انتخابی اخراجات دس لاکھ سے پچاس لاکھ روزانہ ہوتے ہیں۔اسی لئے امیدوار جیتنے کے بعد اپنے خرچ کئے ہوئے لاکھوں اور کروڑوں روپئے بد عنوانی کے ذریعے،عوامی فنڈ میں خرد برد کرکے ، ٹھیکیداروں سے کمیشن اور گھوٹالوں کے ذریعے وصولتا ہے۔یا پھر جن کے مالی تعاون سے اس نے اپنی انتخابی مہم چلائی تھی،انکے مفاد کے لئے کام کرتا ہے نہ کہ ووٹ دینے والی عوام کے لئے۔
ایسی صورت میں اگر عوام ہی میں سے کوئی اسکول کا ٹیچر،صحافی ،ٹیکسی یا رکشا ڈرائیور،مدرسے کا مولوی ،چھوٹا موٹا تاجر ،مزدور یا خاتون خانہ جو باصلاحیت ،ایماندار ہو،اور اپنے روز مرہ کے مسائل ،سیای لیڈروں کی بے رخی سے پریشان ہو ں تو وہ کیسے سیاست میں آئیں ۔الیکشن لڑکر ایوان میں پہنچ کر اپنی آواز اٹھائیں تو کیسے؟اپنا گھر بار بیچ کر بھی وہ الیکشن لڑ نہیں سکتے ،لہٰذا وہ صرف اور صرف ووٹ دینے اور نہ دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔اسی لئے سیاست آج جرائم پیشہ ،فلمی ستاروں ،سرمایہ داروں اور سیاسی مافیاؤں (نیتاؤں) کے بیٹوں اور رشتے داروں کے لئے ہی مخصوص ہو کر رہ گئی ہے۔
الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ الیکشن میں روپئے پیسے کے بے دریغ اخراجات پر اور نکیل کسے اور ایسے قانون وضع کرے جس سے عوامی سطح سے لوگوں کو سیاست میں آنے میں آسانی ہو ۔مشتہر کرنے کے روایتی طریقے بھی ختم کئے جائیں ۔عوامی اور سماجی تنظیمیں اس کے لئے آگے آکر تحریک چلائیں اور ماحول بنائیں جس سے عوام اور ملک دونوں کا بھلا ہوگا۔

محفوظ الرحمن انصاری۔نیا نگر۔مور لینڈ روڈ۔ممبئی 400008.موبائل۔09869398281

Thursday, February 2, 2012

ممبئی میونسپل کارپوریشن سے فرقہ پرستوں کا اقتدار بے دخل ہوگا



راشٹر وادی کانگریس اور کانگریس کے اتحاد میں دم خم!

عنقریب ممبئی میونسپل کارپوریشن کا الیکشن ہونے کو ہے۔ جہاں گزشتہ تقریباً 16سالوں سے شیوسینا ، بی جے پی جیسی فرقہ پرست زعفرانی پارٹیاں اقتدار پر قابض ہے۔ سیکولر ووٹوں کی تقسیم، اکثر و بیشتر ان کی کامیابی کا باعث بن جایا کرتی ہیں۔ وہ اقتدار اور ستہ میں آجاتی ہیں۔ گزشتہ ممبئی میونسپل کارپوریشن کے چناؤ سے قبل، کانگریس پارٹی نے انسانیت پسند سیکولر ووٹروں کی تقسیم کا وعدہ کیا۔ شردپوار کی راشٹروادی کانگریس پارٹی آخر تک انتظار کرتی رہی۔ بالکل آخری وقتوں میں، راشٹر وادی کانگریس پارٹی کے ساتھ، اتحاد کو عملی شکل نہ دے سکی۔ باالفاظ دیگرے اتحاد کو ٹھکرا دیا۔ آخر تک راشٹروادی کانگریس کو اتحاد کی آس میں لگائے رکھا۔ دوسرے جانب اندر ہی اندر تمام سیٹوں پر، درپردہ، اپنے امیدواروں کو ، الیکشن لڑنے کی تیاریوں میں جُٹا دیا۔ راشٹر وادیکانگریس کے امیدوار ہاتھ پر ہاتھ دھرے پیچھے رہے۔ کانگریس کی عیاری، منافقت کا نتیجہ بذات خود اُس کی بھی شکست کے شکل میں آیا۔ دونوں کانگریس پارٹی نے علیٰحدہ علیٰحدہ الیکشن لڑا۔
سیکولر ووٹوں کی تقسیم ہی کی بناء پر ، زعفرانی، فرقہ پرست ٹولے کا ممبئی میونسپل کارپوریشن کے چناؤ کے بعد اُس پر اقتدار حاصل ہوا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب کی ایسا نہ ہوگا۔ شردپوار کانگریس پارٹی کو راشٹروادی کانگریس پارٹی کے ساتھ اتحاد کے لیے 48 گھنٹوں کا وقت دیا، الٹی میٹم دیا، یہ کارگرثابت ہوا۔ کانگریس اتحاد کے لیے تیار ہوگئی۔ کتنی سیٹیں، کس کس وارڈ سے کس کو ملے یہ بھی فائنل ہوگیا۔ اب یقینی طور پر نظر آرہاہے کہ ممبئی میونسپل کارپوریشن سے تقریباً گزشتہ 18سالوں کے بعد فرقہ پرست شیوسینا اور اُس کی حلیف پارٹیاں اقتدار سے بے دخل ہوجائیں گی جو ممبئی ہی کے لیے نہیں بلکہ پورے صوبہ مہاراشٹر کے لیے باعث رحمت ہے۔
شہر ممبئی اک بین الاقوامی انتہائی اہمیت و افادیت کا شہر ہے۔ جس کی آبادی تقریباً دیڑھ کروڑ کے قریب ہے۔ اِسے پورے ملک کی صنعتی راجدھانی سے بھی تغیر کیا جاتا ہے۔ اس شہر کے شہری انتظامات کی ذمہ داری نبھانے کا کام ممبئی میونسپل کارپوریشن کا ہے۔ جس کا بجٹ ہزاروں کروڑ کا ہے۔ ممبئی اک کاسموپولیٹن شہر ہے۔ مہارشٹر ہی نہیں پورے ملک کے کونے کونے سے، لوگ یہاں روزی روٹی کمانے کے لیے ، سالہا سال سے آئے ہوئے ہیں۔ وہ یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ متعدد زبانوں ، متعدد مذاہب و صوبوں کے افراد، یہاں کثیر تعداد میں بسے ہیں۔ ممبئی کے بنانے، نکھارنے اور اُس کی خوبصورتی کو قائم رکھنے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہ فنی کافی گر بھی ہیں۔ مزدور، انجینئر، ڈاکٹر، سائنسداں اور سرمایہ دار بھی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا۔ ان کے بغیر ممبئی ممبئی نہیں۔ یہ ’باہری‘ لوگ ممبئی ہی نہیں مہاراشٹر کی شان ہیں۔ ووٹوں کے بھوکے، اخلاقی اقدار سے خالی ہاتھ سیاستدانوں کی غیر معیاری سیاست، ان ’باہری مگر ہندوستانی باشندوں کی زندگی اجیرن بنا دیتی ہے۔ جس میں شیوسینا اور اُس کے کوکھ سے جنم لینے والی نونرمان سینا اگلی صفوں میں ہے۔
ممبئی میونسپل کارپوریشن کا بجٹ کروڑوں روپے کا ہے۔ غالباً ہندوستان کے کسی اک چھوٹے صوبے سے کم نہیں۔ سیاست میں کرپشن ، بدعنوانی کس قدر ہے، عوام جاننے لگے ہیں۔ ممبئی کے عوام جانتے ہیں کہ اُن کے شہری سائیل کے ساتھ گزشتہ تقریباً 18سالوں سے کس قدر کھلواڑ ہورہا ہے۔ شہر کی تعمیر و ترقی کس غیر معیاری طریقہ سے ہورہی ہے۔ جس کی خاص وجہ ممبئی میونسپل کارپوریشن پر شیوسینا اور اُس کے حلیفوں کا اقتدار ہی ہے۔ یہاں سڑکیں بنیں، وہاں اُس کی تعمیر کے نقائص سامنے آگئے۔ ترقی کے منصوبے بنتے ہیں مگر خاطر خواہ ترقی ہو نہیں پاتے۔ جن کمپنیوں کے تعمیری کام کے ٹینڈر اپاس کیے جاتے ہیں مبینہ طور پر وہ اس اس قدر رشوت دیتے ہیں کہ وہ تعمیر کی اصل حقیقت کو قائم نہیں رکھ سکتے۔ کمائی کا سارا پیسہ مبینہ طور پر رشوت میں چلا گیا۔ لسانی اقلیتوں کے شہری مسائل میں، خاص طور پر ناانصافی کی جاتی ہے۔ ٹینڈر پاس کرتے ہیں، بے انتہا بدعنوانیاں ہوتی ہیں۔ ممبئی میونسپل کارپوریشن میں اقتدار پر قابض ہوکر، سالہاسال سے شیوسینا جیسی پارٹی کو صوبہ مہاراشٹر میں پھلنے پھولنے میں آسانی ہوتی ہے۔ یہاں سے مبینہ طور پر رشوت ، بدعنوانیوں کے ذریعہ کمایا ہوا کالا دھن شیوسینا ، بی جے پی جیسی پارٹیوں کے پھلنے پھولنے میں ، نعمت مرتبہ سے کم نہیں۔ شیوسینا، نونرمان سینا، بی جے پی جیسی پارٹیوں سے ہندوستان کے متعدد صوبوں سے آکر رہنے والے باشندے، مذہبی اقلیتیں ہی نہیں بلکہ ممبئی میں ، مقامی مراٹھی باشندے بھی اوب چکے ہیں۔ ابھی ابھی حال ہی میں مہاراشٹر کے متعدد علاقوں میں پنچایتوں کے چناؤ ہوئے۔ جہاں راشٹر وادی کانگریس اول ، کانگریس دوم، شیوسینا۔بی جے پی، تیسرے نمبر پر رہے۔ جب کہ ’انا ہزارے‘ کی تحریک کا میڈیا میں بازار گرم تھا۔
ممبئی شہر کا مسلمان، دیگر لسانی و مذہبی اقلیتیں کانگریس و راشٹروادی پارٹی کے ساتھ گزشتہ چند سالوں میں، گزشتہ پارلیمنٹ میں ان کی چھ کی چھ سیٹیں، ممبئی سے کامیاب بنانے میں ان کا نمایاں ہاتھ تھا۔ اسی طرح اسمبلی کے چناؤ میں بھی ، ان کا جھکاؤ کانگریس۔راشٹروادی کانگریس کے ساتھ رہا۔ جس کی بناء پر ممبئی شہر میں، فرقہ پرستوں کے مقابلے، اِن کی سیٹیں زیادہ آئیں۔ گزشتہ چند برسوں سے بہاری، اُترپردیش کے لوگوں اور دیگر صوبوں سے آئے ہوئے باشندوں اور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ، شیوسینا۔نونرمان سینا، غیر انسانی ، غیر اخلاقی سلوک کررہی ہے۔ اب ممبئی میونسپل کارپوریشن کے الیکشن میں، کانگریس اور راشٹر وادی کانگریس کی سیاسی اانتخابی مفاہمت ، ان فرقہ پرست پارٹیوں کی شکست کا باعث ہوتی۔ راشٹروادی کانگریس اور کانگریس پارٹی کی ممبئی میں جیت ، پورے مہاراشٹر ہی نہیں پورے ملک میں سیاست کے اک نئے باب کا باعث ہوگی۔ مرکزی وزیر شردپوار ، ویسے بھی صوبہ اور ملک کے بلند پایہ لیڈر ہیں۔ شردپوار کا قد اور مضبوط ہوگا۔ جو ملک کی سیاست میں اک مثبت رول ادا کرے گا۔ اس کی ہمیں پوری امید ہے۔
ممبئی اور مہاراشٹر میں کھلے طور پر 2سیاسی اہم محاذ ہیں۔ اک کانگریس اور اُس کی حلیف راشٹروادی کانگریس دوسرے شیوسینا اور اُس کی حلیف فرقہ پرست پارٹیاں ، راج ٹھاکرے کی نونرمان سینا کاجلوہ اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ کوئی تیسرا جمہوری و سیکولر محاذ ہے ہی نہیں۔ یقیناًپارلیمنٹ اور اسمبلی کے گزشتہ انتخابات میں انہوں نے کانگریس کو ممبئی اور مہاراشٹر میں کامیاب بنایا۔ اسی طرح ممبئی میونسپل کارپوریشن کے چناؤ میں بھی نظر آرہی ہیں۔ خدا خیر کرے ککرمُتّہ کی طرح ، لاتعداد نوزائیدہ سیاسی محاذوں سے، جو صرف اور صرف انسانیت پسندوں اور سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا باعث بن سکتی ہیں۔ اِس سے چوکنّا رہنا ضروری ہے۔



سمیع احمد قریشی
میٹ والی چال، روم نمبر68، دادا صاحب پھالکے روڈ، دادر، ممبئی
فون نمبر: 9323986725
10؍جنوری2012ء

ناگپورمیں اسکالرشپ کے عنوان پر منعقدہ سیمینارکامیاب رہا




ناگپور۔مورخہ ۲۹۔جنوری ۲۰۱۲ء ؁ بروز اتوار صبح ۱۱ ۔بجے انجمن فلاحُ المسلمین اور سی سی آئی کے اشتراک سے انجمن کے وسیع و عریض ہال میں ایک سیمینار کا انعقاد عمل میں آیا جسکی صدارت سابق ڈپٹی کمشنر جناب محمد عارف خان صاحب نے فرمائی۔پاتور(اکولہ) سے جناب محمداسحٰق راہی بطور خصوصی مقرر شریک ہوئے اور مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی اور ملازمت کے امکانات کے عنوانات پر سیر حاصل گفتگو کئے۔CCI سے جناب اشفاق عمر(سکریٹری MDF) اور انعام الرحمن(CCI،ایڈوائزری کمیٹی رکن) نے گورنمینٹ کی مختلف اسکالرشپ اسکیموں پر روشنی ڈالی۔پروفیسر عبدالمجید صدیقی(ورکنگ پریسیڈینٹ،CCI)نے مختصر الفاظ میں سی سی آئی کا تعارف اور گذشتہ چھ سالہ دور میں اسکی سرگرمیوں سے لوگوں کو متعارف کریا۔نیز موصوف نے اس بات پر زور دیا کہ ناگپور اور ودربھ کی غیر سرکاری تنظیمیں سی سی آئی کے ساتھ جٹ کر نہ صرف اسکالرشپ عنوان پر بلکہ ملت کے سماجی،تعلیمی،معاشی اور طبی عنوانات پر بھی رضا کارانہ طور پر سرگرم ِ عمل ہوں۔صدرمجلس جناب محمد عارف خان صاحب نے سی سی آئی کی سرگرمیوں کو خوب سراہا نیز مسلمانوں کے ہر محاذ پر پسماندگی کے پیش نظر حاضرین سے پر زور اپیل کی CCI کے ساتھ ان مسائل کے حل میں کوشاں ہوجائیں۔پروگرام کی نظامت ڈاکٹر اشفاق احمد صاحب(اس سیمینارکے کنوینر)نے بحسن و خوبی کی۔ابتداء میں دسویں جماعت کے ایک متعلم نے قرأت پیش کی نیز محمد محسن نامی ایک دوسرے طالبعلم نے بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں نعت کا نذرانہ پیش کیا۔مختلف تعلیمی اور سماجی خدمات نجام دینے والی ایک کشیر تعداد میں غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندگان نے شرکت کی۔نیز سوال و جواب کے سیشن میں اپنے شکوک و شبہات کا ازالہ بھی کیا۔سیمینار کے اختتام پر منتظمین نے تکلف ضیافت کا اہتمام بھی کیا۔ ضیافت کے بعد جیسا کہ اعلان کیا گیا تھا چند اداروں کے ذمہ داروں کے ساتھCCI کی میٹنگ ہوئی اور یہ طے پایا کہ آئندہ سی سی آئی کے ساتھ رہتے ہوئے ملی مسائل کے ازالے کیلئے مزید سرگرمی کے ساتھ کام کیا جائے گا۔
ایسی پریس نوٹ سی سی آئی کے افس سکریٹری پرویز انجم نے برائے اشاعت روانہ کی۔

ہم تو اس ’’فیشن‘‘ کے ہاتھوں مرچلے


 ’’فیشن‘‘ ایک نہایت ہی چمکیلا اور بھڑکیلا لفظ ہے جس کے بغیر آج کے سارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ادھورے ہیں۔ پہلے ہم آپ کو فیشن کی تعریف بتادیں (آج کے زمانے کے مطابق) ’’فیشن‘‘ پر اس آڑھے ٹیڑھے ، عجیب و غریب حلیے کے اپنانے کو کہا جاتا ہے جسے کوئی بھی شریف آدمی اپنانے میں شرم محسوس کرے۔ مثلاً پھٹی ہوئی جینز ، چست سے چست تر کپڑے عجیب و غریب بال وغیرہ وغیرہ۔
آج کل آپ جس طرف نظراٹھایئے لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان فرق کرنامشکل ہوتا جارہا ہے،ہاں لڑکیاں ایک بار اپنے برقعوں کے ذریعے پہچان لی جاتی ہیں مگر لڑکے وہ ذرا مشکل سے سمجھ میں آتے ہیں کیونکہ انہوں نے ’’فیشن‘‘ میں بال لمبے کرنا شروع کردیے ہیں ان کے کپڑے بھی لڑکیوں کی طرح فٹنگ میں ہوتے ہیں۔ ہاتھوں تک میں مختلف بینڈز پہنے ہوتے ہیں( تاکہ چوڑیوں کی کسر نہ رہ جائے)
لڑکے بچارے ! قدرت نے ان کے لیے زیادہ مواقع ہی نہیں رکھے ہیں سجنے ، سنورنے کے مگر وہ اپنی طرف سے مقدور بھر کوشش کرتے ہیں فیشن کرنے کے اور زمانے کے ساتھ چلنے کے ۔مگر لڑکیاں بھلا انہیں کون روک سکتا ہے وہ تو سجنے سنورنے اور فیشن کرنے کا پیدائشی حق لے کر آئی ہیں تو وہ خوب سج رہی ہیں سنور رہی ہیں اور سڑکوں پر بے پردہ گھوم کر غیروں کے لیے لذت نظارہ مہیا کررہی ہیں کہ بھئی وہ اتنا تیار ہی اسی لیے ہورہی ہیں کہ دوسرے دیکھیں اور سراہیں۔
آج آپ کو بنی سنوری ماڈلز دیکھنے کے لے کسی فیشن شو میں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ یونہی آس پاس نظر دوڑایئے ہزاروں نظر آجائیں گی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ والدین کس طرح اپنی بیٹیوں کو بے پردہ باہر نکلنے کی اجازت دیتے ہیں۔
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبرؔ زمین میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو بیبیوں سے پردہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ مردوں کی عقلوں پہ پڑ گیا
نظر اکبرؔ آبادی
بے چارے نظیر اکبرؔ آبادی! ان کے زمانے میں چند بیبیاں بے پردہ نظر آتی تھیں اور اب تو چند ہی با پردہ نظر آتی ہیں۔ مگر نہیں اب تو باپردہ بھی ہونے لگیں ہیں کیونکہ بازاروں میں اتنے اسٹائلش برقعے جو آگئے ہیں۔ اتنے کام والے برقعے کہ کیا کوئی کپڑا بھی ہوتا ہوگا۔ کچھ تو دھوپ میں چمکتے بھی ہیں کہ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں کچھ اتنے چست اور پتلے ہوتے ہیں کہ ’’صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں‘‘ والا معاملہ ہوجاتا ہے۔
یہ سب کچھ دیکھ کر اس قدر افسوس ہوتا ہے کہ بیان سے باہر ہے کہ یہ وہی مسلم قوم ہے جس کی ایک خاتون کو جب بیٹے کے شہید ہونے کی اطلاع ملی تو انہوں نے پہلے حجاب لیا پھر بیٹے کے آخری دیدار کے لیے نکلیں۔ لوگوں نے جب ان کے عمل پر حیرت کا اظہار کیا تو انہوں نے جواب دیا ’’میں نے بیٹا کھویا ہے حیا نہیں‘‘ سبحان اللہ!
دراصل بات یہ ہے کہ ہماری نئی نسل اپنی بنیادی تعلیم سے ہی واقف نہیں ہے۔ انہیں صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ مسلمان ہیں مگر بحیثیت مسلمان انہیں کس طرح رہنا ہے یہ انہیں نہیں بتایا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ اندھا دھند غیروں کی نقالی کیے جارہے ہیں۔ ذرا غور کیجیے جس لڑکی کو بچپن سے ایسے کپڑے پہنائے جائیں گے جس سے اس کا جسم پوری طرح ڈھکا نہ ہوگا اور بڑے ہوکر اسے پردہ کرنے کوکہا جائے گا تو کیا وہ اس پر عمل کرے گی، ظاہر ہے کہ نہیں۔
اس کے علاوہ پوری دنیا میں میڈیا کے ذریعے اسلام ، پردے اور داڑھی کی اس قدر خراب شبیہہ پیش کی جارہی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو خود کو مسلمان بتاتے ہوئے شرم آنے لگی ہے اور وہ پوری کوشش یہی کرتے ہیں کہ ان کے حلیے سے یہ بات ظاہر نہ ہوپائے کہ وہ مسلمان ہیں۔
ٹرین میں، ہوٹل میں یا کسی بھی عوامی جگہ با پردہ چلے جایئے تو تمام لوگ نہایت ہی ہمدردی سے دیکھتے ہیں۔ انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں کتنا قید کرکے رکھا جارہا ہے۔ وہ یہ سوچ ہی نہیں سکتے کہ کوئی عورت خوشی سے باپردہ رہ سکتی ہے اور تو اور ہمیں تو کئی مسلمانوں تک نے مشورہ دیا ہے کہ اسلام میں اتنی سختی نہیں ہے بھئی ہم تو بے ہوش ہوجائیں گے اتنا موٹا برقعہ پہن کر اور ایک تو ہمارے ملک میں گرمی بھی تو کتنی ہے۔ استغفراللہ! کیا صحابیات کے گھروں میں اے سی لگے ہوئے تھے جو وہ مکمل پردہ کرتی تھیں۔
جب کہ پردہ اسلامی شریعت کا طرۂ امتیاز اور مسلمانوں کی قابل فخر دینی روایت ہے۔ دختران اسلام کو اس سلسلے میں شرمندگی محسوس کرنے کے بجائے فخریہ انداز میں خواتین عالم کے سامنے اس کی دعوت پیش کرنی چاہیے تاکہ دنیا بھر کی عورتیں اس کی برکات سے مستفید ہوسکیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی جی ہا ں ! مسلمانوں کو بھی دین اسلام کی صحیح تعلیم سے آگاہ کیا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ پردے کا شرعی حکم عورت کی عزت وا کرام اور اس کے وقار کے پیش نظر دیا گیا نہ کہ اس کا مقصد عورتوں پر پابندی لگانا یا انہیں مردوں سے کم تر دکھانا ہے۔ حدیث رسولؐ ہے۔
انساء شقائق الرجال (ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
عورتیں انسان ہونے میں مردوں کے برابر ہیں ۔
ہمیں یہ بات لوگوں کو سمجھانی ہیں کہ پردہ شرعی حکم ہونے کے ساتھ ساتھ عورت کی عزت و تکریم کی علامت اور عقل و فطرت کے عین مطابق ہے۔ قرونِ اولیٰ میں خواتین اسلام کے لازوال کارنامے اس بات کا ثبوت ہیں کہ پردہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہرگز نہیں ۔
صفیہؓ بنت عبدالرحمن کے جنگی کارنامے ’’عائشہؓ صدیقہ کا علمی و ادبی مقام و مرتبہ، حفصہ بنت سرین اور ام الدرداء الصغریٰ کا علوم دین سے شغف ، عائشہ بنت عبدالرحمن کا شعر و سخن سے لگاؤ یہ تمام تاریخ اسلام کے زریں ابواب ہیں۔ نیز زبیدہ ایک مسلم خاتون کا ہی رفاہی کارنامہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تاریخی ابواب سے واقفیت حاصل کی جائے۔
اس کا مطلب یہ ہرگز ہرگز نہیں ہے کہ ہم لڑکیوں کے سجنے سنورنے یا ’’فیشن‘‘ کرنے سے منع کررہے ہیں آپ بالکل شوق سے سجئے سنوریے مگر ایک حد میں۔ آپ کنواری ہیں تو آپ کو زیب نہیں دیتا کہ آپ اپنے آٖ پکو سجا سنوار کر دوسروں کے لیے لذت نظارہ مہیا کریں اور اگر آپ شادی شدہ ہیں تو سجئے خوب فیشن کیجیے مگر صرف اپنے خاوند کے لیے اور اگر باہر نکلیں تو اپنی زینت کو چھپا کر اور فیشن بھی ایسا ہو کہ اپنی حد میں ہو اور خوبصورت بھی لگے تو پھر کیا کہنے۔ واہ بھئی واہ ہوجائے گا دنیا میں بھی آخرت میں بھی۔ کیونکہ یہ بات تو ہمارے خیال سے تقریباً سبھی لوگوں کو معلوم ہوچکی ہوگی کہ بڑھتے ہوئے جرائم کا سب سے بڑا سبب بے پردگی ہے۔ مگر کیا کہنے آج کی عورتوں کی ڈھٹائی کے کہ وہ آدمیوں سے کہتی ہیں کہ خود کو قابو میں رکھیں ہم تو جیسا جی چاہیں گے ویسا گھومیں گے۔ استغفراللہ ۔ اللہ ان لوگوں کو ہدایت سے نوازے۔ آمین
ہم تمام لوگوں کا فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بچپن سے ہی اسلام سے مکمل طور سے آگاہ کرتے رہیں۔ انہیں بچپن سے ہی ساتر لباس پہننے اور باوقار رہنے کی عادت ڈالیں تاکہ وہ بڑے ہوں تو بحیثیت مسلمان خود پر فخر کریں تاکہ شرم کی وجہ سے دوسروں کے جیسا حلیہ اپنالیں۔ کیونکہ یہ دنیا تو عارضی ہے ہمیں تو آخرت میں اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہے اور اللہ کو نہ صرف ماننا اسلام ہے بلکہ اللہ کی ماننا اسلام ہے۔ اللہ کی بندگی کا اظہار صرف اس طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی مکمل اطاعت کی جائے اور اس کی منع کردہ اشیاء سے مکمل اجتناب کیا جائے تب ہی مکمل کامیابی مل سکتی ہے۔ کیوں آپ ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش گے ناں ؟ (انشاء اللہ تعالیٰ)
ٓانصاری صادقہ طارق
ممبئی

’’ڈراما تدریسی عمل ، میں ٹیچر کے لیے کار گر ہتھیا ر ہے!‘‘ اقبال نیازی


 
حُسنیٰ عبدالملک ڈگری کالج کلیان کی طالبات کی ’’ایک ملاقات‘‘
گذشتہ دنوں کلیان کے حُسنیٰ عبدالملک مدّو ڈگری گرلز کالج کی بی اے سالِ آخر کی تمام طالبات نے کرلا (ممبئی)میں ’’ایک ملاقات ‘‘ پروگرام کے تحت معروف ڈراما نگار ،ہدایت کار اور ٹیچر اقبال نیازی سے ایک مخصوص ملاقات کی۔طالبات کے ہمراہ کا لج کے پروفیسر صادق انصاری صاحب اور لیکچرر محترمہ تحسین شیخ بھی تھیں ۔بی اے سالِ آخر میں ممبئی یونیورسٹی کے ذریعے تفویض کیے گئے پروجیکٹ کے تحت ڈراما نگار اقبال نیازی کے فن اور شخصیت پر مکمل و مبسوط پروجیکٹ کی تیاری ان طالبات کے ذمّہ تھی ۔ پروفیسر صادق نے اقبال نیازی صاحب کا تعارف کرایا،اور کہا کہ’’ یہ امر باعثِ مسّرت ہے کہ اقبال نیازی صاحب کے فن اور شخصیت پر مسلسل تین برسوں تک ممبئی یو نیورسٹی سے بی اے کے طلبہ کے لیے پر و جیکٹ مختلف کا لجوں نے تیار کروائے ہیں ۔‘‘
محترمہ تحسین شیخ نے گل پوشی کی ، طالبات نے تحائف سے نوازا اور مسلسل تین گھنٹے تک صاحبِ اعزاز نے فن ڈراما کی باریکیوں ، اس کی سیاسی و سماجی اثرات و مضمرات پر سیر حاصل گفتگو کی اور طالبات نے بہت ہی جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے 
ڈراما کے فنّی ارتقائی منازل ، تخلیقی عمل اور کتابوں کی اشاعت ، اردو زبان و ادب کی صور تحال ، سیاسی و سماجی تناظر پر سوالات کیے ، جن کے
ا طمینان بخش جوابات اقبال نیازی نے دیئے انھوں نے کہا کہ ’’ آج بھی ڈراما کو ’’ ا چھوت ‘‘ سمجھنے والے اس فن کے اچھوتے پن سے واقف نہیں ، ڈراما تو شخصیت سازی ، اور بچے کے آ ل راؤ نڈ ڈیو لپمنٹ کا ایک بیحد پر اثر اور دلچسپ ذریعہ ہے ۔ ڈراما تدریسی عمل میں بھی ٹیچر کے لیے ایک کارگر ہتھیار ہے۔۔ انھوں نے کہا کہ فنِ ڈراما سے ہماری طالبات کی وا بستگی یا د لچسپی کا مطلب ہر گز یہ نہیں لیا جا نا چاہیے کہ وہ فلموں میں ،سیریلوں میں اداکاری کرنے نکل پڑیں گی۔مسلسل تین گھنٹوں تک اس مفید اور کار آمد گفتگو سے طالبات نے استفادہ کیا 
اور بہت خوشی اور گرم جو شی کے ساتھ صاحبِ اعزاز کا شکریہ ادا کیا ۔ اس مختصر سی ملاقات میں تمام طالبات نے جاتے ہوئے فنِ ڈراما کے تعلق سے پیدا ہونے والی دلچسپی اور شوق کا شدید اظہار کیااور صاحبِ اعزاز سے اردو کے اچھے اور معیاری ڈرامے دکھانے کی فرمائش کی۔
اخیر میں پروفیسر صادق انصاری نے حسنیٰ عبد الملک گرلز ڈگری کالج کی پرنسپل محترمہ نادرہ مسعود پیش امام کی جانب سے ایک تشکر نامہ جناب اقبال نیازی کی خدمت میں پیش کیا۔