Thursday, February 23, 2012

سیاست کو مافیا سے بچائیں


اکثر کہا جاتا ہے کہ سیاست میں اگر اچھے لوگ نہیں آئیں گے تو انہیں برے لوگوں کو جھیلنا ہی ہوگا۔موجودہ صورت حال تو یہ ہے کہ اب تو میونسپل الیکشن بھی وہی لڑسکتا ہے جو بیس سے پچیس لاکھ روپئے خرچ کرنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ممبئی میونسپل الیکشن ابھی حال ہی میں ختم ہوا ہے ۔الیکشن کمیشن نے انتخابی خرچ کی حد کچھ بھی مقرر کی ہو ۔مگر امیدواروں نے الیکشن آفس ،ورکروں کی فوج ،موٹر گاڑیوں ،جلسوں ،بینرس،پوسٹرس اور ہینڈ بلوں پر تو لاکھوں خرچ کیا ہی اس کے علاوہ خفیہ طور پر ووٹوں کے جگاڑ اور ٹکٹ کے حصول کے لئے نہ جانے کتنا خرچ کیا ہوگا اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا ہے۔کانگریس کے سابق کارپوریٹر خان محمد بستی والانے تو اپنی ہی پارٹی پر ٹکٹ کے عوض پچاس لاکھ روپئے کا مطالبہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔پھر سوچئے کہ اسمبلی اور لوک سبھا کے الیکشن لڑنے کے لئے تو قارون کا خزانہ پاس میں ہونا چاہئے۔جن کے انتخابی اخراجات دس لاکھ سے پچاس لاکھ روزانہ ہوتے ہیں۔اسی لئے امیدوار جیتنے کے بعد اپنے خرچ کئے ہوئے لاکھوں اور کروڑوں روپئے بد عنوانی کے ذریعے،عوامی فنڈ میں خرد برد کرکے ، ٹھیکیداروں سے کمیشن اور گھوٹالوں کے ذریعے وصولتا ہے۔یا پھر جن کے مالی تعاون سے اس نے اپنی انتخابی مہم چلائی تھی،انکے مفاد کے لئے کام کرتا ہے نہ کہ ووٹ دینے والی عوام کے لئے۔
ایسی صورت میں اگر عوام ہی میں سے کوئی اسکول کا ٹیچر،صحافی ،ٹیکسی یا رکشا ڈرائیور،مدرسے کا مولوی ،چھوٹا موٹا تاجر ،مزدور یا خاتون خانہ جو باصلاحیت ،ایماندار ہو،اور اپنے روز مرہ کے مسائل ،سیای لیڈروں کی بے رخی سے پریشان ہو ں تو وہ کیسے سیاست میں آئیں ۔الیکشن لڑکر ایوان میں پہنچ کر اپنی آواز اٹھائیں تو کیسے؟اپنا گھر بار بیچ کر بھی وہ الیکشن لڑ نہیں سکتے ،لہٰذا وہ صرف اور صرف ووٹ دینے اور نہ دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔اسی لئے سیاست آج جرائم پیشہ ،فلمی ستاروں ،سرمایہ داروں اور سیاسی مافیاؤں (نیتاؤں) کے بیٹوں اور رشتے داروں کے لئے ہی مخصوص ہو کر رہ گئی ہے۔
الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ الیکشن میں روپئے پیسے کے بے دریغ اخراجات پر اور نکیل کسے اور ایسے قانون وضع کرے جس سے عوامی سطح سے لوگوں کو سیاست میں آنے میں آسانی ہو ۔مشتہر کرنے کے روایتی طریقے بھی ختم کئے جائیں ۔عوامی اور سماجی تنظیمیں اس کے لئے آگے آکر تحریک چلائیں اور ماحول بنائیں جس سے عوام اور ملک دونوں کا بھلا ہوگا۔

محفوظ الرحمن انصاری۔نیا نگر۔مور لینڈ روڈ۔ممبئی 400008.موبائل۔09869398281

Thursday, February 2, 2012

ممبئی میونسپل کارپوریشن سے فرقہ پرستوں کا اقتدار بے دخل ہوگا



راشٹر وادی کانگریس اور کانگریس کے اتحاد میں دم خم!

عنقریب ممبئی میونسپل کارپوریشن کا الیکشن ہونے کو ہے۔ جہاں گزشتہ تقریباً 16سالوں سے شیوسینا ، بی جے پی جیسی فرقہ پرست زعفرانی پارٹیاں اقتدار پر قابض ہے۔ سیکولر ووٹوں کی تقسیم، اکثر و بیشتر ان کی کامیابی کا باعث بن جایا کرتی ہیں۔ وہ اقتدار اور ستہ میں آجاتی ہیں۔ گزشتہ ممبئی میونسپل کارپوریشن کے چناؤ سے قبل، کانگریس پارٹی نے انسانیت پسند سیکولر ووٹروں کی تقسیم کا وعدہ کیا۔ شردپوار کی راشٹروادی کانگریس پارٹی آخر تک انتظار کرتی رہی۔ بالکل آخری وقتوں میں، راشٹر وادی کانگریس پارٹی کے ساتھ، اتحاد کو عملی شکل نہ دے سکی۔ باالفاظ دیگرے اتحاد کو ٹھکرا دیا۔ آخر تک راشٹروادی کانگریس کو اتحاد کی آس میں لگائے رکھا۔ دوسرے جانب اندر ہی اندر تمام سیٹوں پر، درپردہ، اپنے امیدواروں کو ، الیکشن لڑنے کی تیاریوں میں جُٹا دیا۔ راشٹر وادیکانگریس کے امیدوار ہاتھ پر ہاتھ دھرے پیچھے رہے۔ کانگریس کی عیاری، منافقت کا نتیجہ بذات خود اُس کی بھی شکست کے شکل میں آیا۔ دونوں کانگریس پارٹی نے علیٰحدہ علیٰحدہ الیکشن لڑا۔
سیکولر ووٹوں کی تقسیم ہی کی بناء پر ، زعفرانی، فرقہ پرست ٹولے کا ممبئی میونسپل کارپوریشن کے چناؤ کے بعد اُس پر اقتدار حاصل ہوا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب کی ایسا نہ ہوگا۔ شردپوار کانگریس پارٹی کو راشٹروادی کانگریس پارٹی کے ساتھ اتحاد کے لیے 48 گھنٹوں کا وقت دیا، الٹی میٹم دیا، یہ کارگرثابت ہوا۔ کانگریس اتحاد کے لیے تیار ہوگئی۔ کتنی سیٹیں، کس کس وارڈ سے کس کو ملے یہ بھی فائنل ہوگیا۔ اب یقینی طور پر نظر آرہاہے کہ ممبئی میونسپل کارپوریشن سے تقریباً گزشتہ 18سالوں کے بعد فرقہ پرست شیوسینا اور اُس کی حلیف پارٹیاں اقتدار سے بے دخل ہوجائیں گی جو ممبئی ہی کے لیے نہیں بلکہ پورے صوبہ مہاراشٹر کے لیے باعث رحمت ہے۔
شہر ممبئی اک بین الاقوامی انتہائی اہمیت و افادیت کا شہر ہے۔ جس کی آبادی تقریباً دیڑھ کروڑ کے قریب ہے۔ اِسے پورے ملک کی صنعتی راجدھانی سے بھی تغیر کیا جاتا ہے۔ اس شہر کے شہری انتظامات کی ذمہ داری نبھانے کا کام ممبئی میونسپل کارپوریشن کا ہے۔ جس کا بجٹ ہزاروں کروڑ کا ہے۔ ممبئی اک کاسموپولیٹن شہر ہے۔ مہارشٹر ہی نہیں پورے ملک کے کونے کونے سے، لوگ یہاں روزی روٹی کمانے کے لیے ، سالہا سال سے آئے ہوئے ہیں۔ وہ یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ متعدد زبانوں ، متعدد مذاہب و صوبوں کے افراد، یہاں کثیر تعداد میں بسے ہیں۔ ممبئی کے بنانے، نکھارنے اور اُس کی خوبصورتی کو قائم رکھنے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہ فنی کافی گر بھی ہیں۔ مزدور، انجینئر، ڈاکٹر، سائنسداں اور سرمایہ دار بھی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا۔ ان کے بغیر ممبئی ممبئی نہیں۔ یہ ’باہری‘ لوگ ممبئی ہی نہیں مہاراشٹر کی شان ہیں۔ ووٹوں کے بھوکے، اخلاقی اقدار سے خالی ہاتھ سیاستدانوں کی غیر معیاری سیاست، ان ’باہری مگر ہندوستانی باشندوں کی زندگی اجیرن بنا دیتی ہے۔ جس میں شیوسینا اور اُس کے کوکھ سے جنم لینے والی نونرمان سینا اگلی صفوں میں ہے۔
ممبئی میونسپل کارپوریشن کا بجٹ کروڑوں روپے کا ہے۔ غالباً ہندوستان کے کسی اک چھوٹے صوبے سے کم نہیں۔ سیاست میں کرپشن ، بدعنوانی کس قدر ہے، عوام جاننے لگے ہیں۔ ممبئی کے عوام جانتے ہیں کہ اُن کے شہری سائیل کے ساتھ گزشتہ تقریباً 18سالوں سے کس قدر کھلواڑ ہورہا ہے۔ شہر کی تعمیر و ترقی کس غیر معیاری طریقہ سے ہورہی ہے۔ جس کی خاص وجہ ممبئی میونسپل کارپوریشن پر شیوسینا اور اُس کے حلیفوں کا اقتدار ہی ہے۔ یہاں سڑکیں بنیں، وہاں اُس کی تعمیر کے نقائص سامنے آگئے۔ ترقی کے منصوبے بنتے ہیں مگر خاطر خواہ ترقی ہو نہیں پاتے۔ جن کمپنیوں کے تعمیری کام کے ٹینڈر اپاس کیے جاتے ہیں مبینہ طور پر وہ اس اس قدر رشوت دیتے ہیں کہ وہ تعمیر کی اصل حقیقت کو قائم نہیں رکھ سکتے۔ کمائی کا سارا پیسہ مبینہ طور پر رشوت میں چلا گیا۔ لسانی اقلیتوں کے شہری مسائل میں، خاص طور پر ناانصافی کی جاتی ہے۔ ٹینڈر پاس کرتے ہیں، بے انتہا بدعنوانیاں ہوتی ہیں۔ ممبئی میونسپل کارپوریشن میں اقتدار پر قابض ہوکر، سالہاسال سے شیوسینا جیسی پارٹی کو صوبہ مہاراشٹر میں پھلنے پھولنے میں آسانی ہوتی ہے۔ یہاں سے مبینہ طور پر رشوت ، بدعنوانیوں کے ذریعہ کمایا ہوا کالا دھن شیوسینا ، بی جے پی جیسی پارٹیوں کے پھلنے پھولنے میں ، نعمت مرتبہ سے کم نہیں۔ شیوسینا، نونرمان سینا، بی جے پی جیسی پارٹیوں سے ہندوستان کے متعدد صوبوں سے آکر رہنے والے باشندے، مذہبی اقلیتیں ہی نہیں بلکہ ممبئی میں ، مقامی مراٹھی باشندے بھی اوب چکے ہیں۔ ابھی ابھی حال ہی میں مہاراشٹر کے متعدد علاقوں میں پنچایتوں کے چناؤ ہوئے۔ جہاں راشٹر وادی کانگریس اول ، کانگریس دوم، شیوسینا۔بی جے پی، تیسرے نمبر پر رہے۔ جب کہ ’انا ہزارے‘ کی تحریک کا میڈیا میں بازار گرم تھا۔
ممبئی شہر کا مسلمان، دیگر لسانی و مذہبی اقلیتیں کانگریس و راشٹروادی پارٹی کے ساتھ گزشتہ چند سالوں میں، گزشتہ پارلیمنٹ میں ان کی چھ کی چھ سیٹیں، ممبئی سے کامیاب بنانے میں ان کا نمایاں ہاتھ تھا۔ اسی طرح اسمبلی کے چناؤ میں بھی ، ان کا جھکاؤ کانگریس۔راشٹروادی کانگریس کے ساتھ رہا۔ جس کی بناء پر ممبئی شہر میں، فرقہ پرستوں کے مقابلے، اِن کی سیٹیں زیادہ آئیں۔ گزشتہ چند برسوں سے بہاری، اُترپردیش کے لوگوں اور دیگر صوبوں سے آئے ہوئے باشندوں اور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ، شیوسینا۔نونرمان سینا، غیر انسانی ، غیر اخلاقی سلوک کررہی ہے۔ اب ممبئی میونسپل کارپوریشن کے الیکشن میں، کانگریس اور راشٹر وادی کانگریس کی سیاسی اانتخابی مفاہمت ، ان فرقہ پرست پارٹیوں کی شکست کا باعث ہوتی۔ راشٹروادی کانگریس اور کانگریس پارٹی کی ممبئی میں جیت ، پورے مہاراشٹر ہی نہیں پورے ملک میں سیاست کے اک نئے باب کا باعث ہوگی۔ مرکزی وزیر شردپوار ، ویسے بھی صوبہ اور ملک کے بلند پایہ لیڈر ہیں۔ شردپوار کا قد اور مضبوط ہوگا۔ جو ملک کی سیاست میں اک مثبت رول ادا کرے گا۔ اس کی ہمیں پوری امید ہے۔
ممبئی اور مہاراشٹر میں کھلے طور پر 2سیاسی اہم محاذ ہیں۔ اک کانگریس اور اُس کی حلیف راشٹروادی کانگریس دوسرے شیوسینا اور اُس کی حلیف فرقہ پرست پارٹیاں ، راج ٹھاکرے کی نونرمان سینا کاجلوہ اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ کوئی تیسرا جمہوری و سیکولر محاذ ہے ہی نہیں۔ یقیناًپارلیمنٹ اور اسمبلی کے گزشتہ انتخابات میں انہوں نے کانگریس کو ممبئی اور مہاراشٹر میں کامیاب بنایا۔ اسی طرح ممبئی میونسپل کارپوریشن کے چناؤ میں بھی نظر آرہی ہیں۔ خدا خیر کرے ککرمُتّہ کی طرح ، لاتعداد نوزائیدہ سیاسی محاذوں سے، جو صرف اور صرف انسانیت پسندوں اور سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا باعث بن سکتی ہیں۔ اِس سے چوکنّا رہنا ضروری ہے۔



سمیع احمد قریشی
میٹ والی چال، روم نمبر68، دادا صاحب پھالکے روڈ، دادر، ممبئی
فون نمبر: 9323986725
10؍جنوری2012ء

ناگپورمیں اسکالرشپ کے عنوان پر منعقدہ سیمینارکامیاب رہا




ناگپور۔مورخہ ۲۹۔جنوری ۲۰۱۲ء ؁ بروز اتوار صبح ۱۱ ۔بجے انجمن فلاحُ المسلمین اور سی سی آئی کے اشتراک سے انجمن کے وسیع و عریض ہال میں ایک سیمینار کا انعقاد عمل میں آیا جسکی صدارت سابق ڈپٹی کمشنر جناب محمد عارف خان صاحب نے فرمائی۔پاتور(اکولہ) سے جناب محمداسحٰق راہی بطور خصوصی مقرر شریک ہوئے اور مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی اور ملازمت کے امکانات کے عنوانات پر سیر حاصل گفتگو کئے۔CCI سے جناب اشفاق عمر(سکریٹری MDF) اور انعام الرحمن(CCI،ایڈوائزری کمیٹی رکن) نے گورنمینٹ کی مختلف اسکالرشپ اسکیموں پر روشنی ڈالی۔پروفیسر عبدالمجید صدیقی(ورکنگ پریسیڈینٹ،CCI)نے مختصر الفاظ میں سی سی آئی کا تعارف اور گذشتہ چھ سالہ دور میں اسکی سرگرمیوں سے لوگوں کو متعارف کریا۔نیز موصوف نے اس بات پر زور دیا کہ ناگپور اور ودربھ کی غیر سرکاری تنظیمیں سی سی آئی کے ساتھ جٹ کر نہ صرف اسکالرشپ عنوان پر بلکہ ملت کے سماجی،تعلیمی،معاشی اور طبی عنوانات پر بھی رضا کارانہ طور پر سرگرم ِ عمل ہوں۔صدرمجلس جناب محمد عارف خان صاحب نے سی سی آئی کی سرگرمیوں کو خوب سراہا نیز مسلمانوں کے ہر محاذ پر پسماندگی کے پیش نظر حاضرین سے پر زور اپیل کی CCI کے ساتھ ان مسائل کے حل میں کوشاں ہوجائیں۔پروگرام کی نظامت ڈاکٹر اشفاق احمد صاحب(اس سیمینارکے کنوینر)نے بحسن و خوبی کی۔ابتداء میں دسویں جماعت کے ایک متعلم نے قرأت پیش کی نیز محمد محسن نامی ایک دوسرے طالبعلم نے بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں نعت کا نذرانہ پیش کیا۔مختلف تعلیمی اور سماجی خدمات نجام دینے والی ایک کشیر تعداد میں غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندگان نے شرکت کی۔نیز سوال و جواب کے سیشن میں اپنے شکوک و شبہات کا ازالہ بھی کیا۔سیمینار کے اختتام پر منتظمین نے تکلف ضیافت کا اہتمام بھی کیا۔ ضیافت کے بعد جیسا کہ اعلان کیا گیا تھا چند اداروں کے ذمہ داروں کے ساتھCCI کی میٹنگ ہوئی اور یہ طے پایا کہ آئندہ سی سی آئی کے ساتھ رہتے ہوئے ملی مسائل کے ازالے کیلئے مزید سرگرمی کے ساتھ کام کیا جائے گا۔
ایسی پریس نوٹ سی سی آئی کے افس سکریٹری پرویز انجم نے برائے اشاعت روانہ کی۔

ہم تو اس ’’فیشن‘‘ کے ہاتھوں مرچلے


 ’’فیشن‘‘ ایک نہایت ہی چمکیلا اور بھڑکیلا لفظ ہے جس کے بغیر آج کے سارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ادھورے ہیں۔ پہلے ہم آپ کو فیشن کی تعریف بتادیں (آج کے زمانے کے مطابق) ’’فیشن‘‘ پر اس آڑھے ٹیڑھے ، عجیب و غریب حلیے کے اپنانے کو کہا جاتا ہے جسے کوئی بھی شریف آدمی اپنانے میں شرم محسوس کرے۔ مثلاً پھٹی ہوئی جینز ، چست سے چست تر کپڑے عجیب و غریب بال وغیرہ وغیرہ۔
آج کل آپ جس طرف نظراٹھایئے لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان فرق کرنامشکل ہوتا جارہا ہے،ہاں لڑکیاں ایک بار اپنے برقعوں کے ذریعے پہچان لی جاتی ہیں مگر لڑکے وہ ذرا مشکل سے سمجھ میں آتے ہیں کیونکہ انہوں نے ’’فیشن‘‘ میں بال لمبے کرنا شروع کردیے ہیں ان کے کپڑے بھی لڑکیوں کی طرح فٹنگ میں ہوتے ہیں۔ ہاتھوں تک میں مختلف بینڈز پہنے ہوتے ہیں( تاکہ چوڑیوں کی کسر نہ رہ جائے)
لڑکے بچارے ! قدرت نے ان کے لیے زیادہ مواقع ہی نہیں رکھے ہیں سجنے ، سنورنے کے مگر وہ اپنی طرف سے مقدور بھر کوشش کرتے ہیں فیشن کرنے کے اور زمانے کے ساتھ چلنے کے ۔مگر لڑکیاں بھلا انہیں کون روک سکتا ہے وہ تو سجنے سنورنے اور فیشن کرنے کا پیدائشی حق لے کر آئی ہیں تو وہ خوب سج رہی ہیں سنور رہی ہیں اور سڑکوں پر بے پردہ گھوم کر غیروں کے لیے لذت نظارہ مہیا کررہی ہیں کہ بھئی وہ اتنا تیار ہی اسی لیے ہورہی ہیں کہ دوسرے دیکھیں اور سراہیں۔
آج آپ کو بنی سنوری ماڈلز دیکھنے کے لے کسی فیشن شو میں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ یونہی آس پاس نظر دوڑایئے ہزاروں نظر آجائیں گی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ والدین کس طرح اپنی بیٹیوں کو بے پردہ باہر نکلنے کی اجازت دیتے ہیں۔
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبرؔ زمین میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو بیبیوں سے پردہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ مردوں کی عقلوں پہ پڑ گیا
نظر اکبرؔ آبادی
بے چارے نظیر اکبرؔ آبادی! ان کے زمانے میں چند بیبیاں بے پردہ نظر آتی تھیں اور اب تو چند ہی با پردہ نظر آتی ہیں۔ مگر نہیں اب تو باپردہ بھی ہونے لگیں ہیں کیونکہ بازاروں میں اتنے اسٹائلش برقعے جو آگئے ہیں۔ اتنے کام والے برقعے کہ کیا کوئی کپڑا بھی ہوتا ہوگا۔ کچھ تو دھوپ میں چمکتے بھی ہیں کہ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں کچھ اتنے چست اور پتلے ہوتے ہیں کہ ’’صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں‘‘ والا معاملہ ہوجاتا ہے۔
یہ سب کچھ دیکھ کر اس قدر افسوس ہوتا ہے کہ بیان سے باہر ہے کہ یہ وہی مسلم قوم ہے جس کی ایک خاتون کو جب بیٹے کے شہید ہونے کی اطلاع ملی تو انہوں نے پہلے حجاب لیا پھر بیٹے کے آخری دیدار کے لیے نکلیں۔ لوگوں نے جب ان کے عمل پر حیرت کا اظہار کیا تو انہوں نے جواب دیا ’’میں نے بیٹا کھویا ہے حیا نہیں‘‘ سبحان اللہ!
دراصل بات یہ ہے کہ ہماری نئی نسل اپنی بنیادی تعلیم سے ہی واقف نہیں ہے۔ انہیں صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ مسلمان ہیں مگر بحیثیت مسلمان انہیں کس طرح رہنا ہے یہ انہیں نہیں بتایا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ اندھا دھند غیروں کی نقالی کیے جارہے ہیں۔ ذرا غور کیجیے جس لڑکی کو بچپن سے ایسے کپڑے پہنائے جائیں گے جس سے اس کا جسم پوری طرح ڈھکا نہ ہوگا اور بڑے ہوکر اسے پردہ کرنے کوکہا جائے گا تو کیا وہ اس پر عمل کرے گی، ظاہر ہے کہ نہیں۔
اس کے علاوہ پوری دنیا میں میڈیا کے ذریعے اسلام ، پردے اور داڑھی کی اس قدر خراب شبیہہ پیش کی جارہی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو خود کو مسلمان بتاتے ہوئے شرم آنے لگی ہے اور وہ پوری کوشش یہی کرتے ہیں کہ ان کے حلیے سے یہ بات ظاہر نہ ہوپائے کہ وہ مسلمان ہیں۔
ٹرین میں، ہوٹل میں یا کسی بھی عوامی جگہ با پردہ چلے جایئے تو تمام لوگ نہایت ہی ہمدردی سے دیکھتے ہیں۔ انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں کتنا قید کرکے رکھا جارہا ہے۔ وہ یہ سوچ ہی نہیں سکتے کہ کوئی عورت خوشی سے باپردہ رہ سکتی ہے اور تو اور ہمیں تو کئی مسلمانوں تک نے مشورہ دیا ہے کہ اسلام میں اتنی سختی نہیں ہے بھئی ہم تو بے ہوش ہوجائیں گے اتنا موٹا برقعہ پہن کر اور ایک تو ہمارے ملک میں گرمی بھی تو کتنی ہے۔ استغفراللہ! کیا صحابیات کے گھروں میں اے سی لگے ہوئے تھے جو وہ مکمل پردہ کرتی تھیں۔
جب کہ پردہ اسلامی شریعت کا طرۂ امتیاز اور مسلمانوں کی قابل فخر دینی روایت ہے۔ دختران اسلام کو اس سلسلے میں شرمندگی محسوس کرنے کے بجائے فخریہ انداز میں خواتین عالم کے سامنے اس کی دعوت پیش کرنی چاہیے تاکہ دنیا بھر کی عورتیں اس کی برکات سے مستفید ہوسکیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی جی ہا ں ! مسلمانوں کو بھی دین اسلام کی صحیح تعلیم سے آگاہ کیا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ پردے کا شرعی حکم عورت کی عزت وا کرام اور اس کے وقار کے پیش نظر دیا گیا نہ کہ اس کا مقصد عورتوں پر پابندی لگانا یا انہیں مردوں سے کم تر دکھانا ہے۔ حدیث رسولؐ ہے۔
انساء شقائق الرجال (ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
عورتیں انسان ہونے میں مردوں کے برابر ہیں ۔
ہمیں یہ بات لوگوں کو سمجھانی ہیں کہ پردہ شرعی حکم ہونے کے ساتھ ساتھ عورت کی عزت و تکریم کی علامت اور عقل و فطرت کے عین مطابق ہے۔ قرونِ اولیٰ میں خواتین اسلام کے لازوال کارنامے اس بات کا ثبوت ہیں کہ پردہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہرگز نہیں ۔
صفیہؓ بنت عبدالرحمن کے جنگی کارنامے ’’عائشہؓ صدیقہ کا علمی و ادبی مقام و مرتبہ، حفصہ بنت سرین اور ام الدرداء الصغریٰ کا علوم دین سے شغف ، عائشہ بنت عبدالرحمن کا شعر و سخن سے لگاؤ یہ تمام تاریخ اسلام کے زریں ابواب ہیں۔ نیز زبیدہ ایک مسلم خاتون کا ہی رفاہی کارنامہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تاریخی ابواب سے واقفیت حاصل کی جائے۔
اس کا مطلب یہ ہرگز ہرگز نہیں ہے کہ ہم لڑکیوں کے سجنے سنورنے یا ’’فیشن‘‘ کرنے سے منع کررہے ہیں آپ بالکل شوق سے سجئے سنوریے مگر ایک حد میں۔ آپ کنواری ہیں تو آپ کو زیب نہیں دیتا کہ آپ اپنے آٖ پکو سجا سنوار کر دوسروں کے لیے لذت نظارہ مہیا کریں اور اگر آپ شادی شدہ ہیں تو سجئے خوب فیشن کیجیے مگر صرف اپنے خاوند کے لیے اور اگر باہر نکلیں تو اپنی زینت کو چھپا کر اور فیشن بھی ایسا ہو کہ اپنی حد میں ہو اور خوبصورت بھی لگے تو پھر کیا کہنے۔ واہ بھئی واہ ہوجائے گا دنیا میں بھی آخرت میں بھی۔ کیونکہ یہ بات تو ہمارے خیال سے تقریباً سبھی لوگوں کو معلوم ہوچکی ہوگی کہ بڑھتے ہوئے جرائم کا سب سے بڑا سبب بے پردگی ہے۔ مگر کیا کہنے آج کی عورتوں کی ڈھٹائی کے کہ وہ آدمیوں سے کہتی ہیں کہ خود کو قابو میں رکھیں ہم تو جیسا جی چاہیں گے ویسا گھومیں گے۔ استغفراللہ ۔ اللہ ان لوگوں کو ہدایت سے نوازے۔ آمین
ہم تمام لوگوں کا فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بچپن سے ہی اسلام سے مکمل طور سے آگاہ کرتے رہیں۔ انہیں بچپن سے ہی ساتر لباس پہننے اور باوقار رہنے کی عادت ڈالیں تاکہ وہ بڑے ہوں تو بحیثیت مسلمان خود پر فخر کریں تاکہ شرم کی وجہ سے دوسروں کے جیسا حلیہ اپنالیں۔ کیونکہ یہ دنیا تو عارضی ہے ہمیں تو آخرت میں اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہے اور اللہ کو نہ صرف ماننا اسلام ہے بلکہ اللہ کی ماننا اسلام ہے۔ اللہ کی بندگی کا اظہار صرف اس طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی مکمل اطاعت کی جائے اور اس کی منع کردہ اشیاء سے مکمل اجتناب کیا جائے تب ہی مکمل کامیابی مل سکتی ہے۔ کیوں آپ ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش گے ناں ؟ (انشاء اللہ تعالیٰ)
ٓانصاری صادقہ طارق
ممبئی

’’ڈراما تدریسی عمل ، میں ٹیچر کے لیے کار گر ہتھیا ر ہے!‘‘ اقبال نیازی


 
حُسنیٰ عبدالملک ڈگری کالج کلیان کی طالبات کی ’’ایک ملاقات‘‘
گذشتہ دنوں کلیان کے حُسنیٰ عبدالملک مدّو ڈگری گرلز کالج کی بی اے سالِ آخر کی تمام طالبات نے کرلا (ممبئی)میں ’’ایک ملاقات ‘‘ پروگرام کے تحت معروف ڈراما نگار ،ہدایت کار اور ٹیچر اقبال نیازی سے ایک مخصوص ملاقات کی۔طالبات کے ہمراہ کا لج کے پروفیسر صادق انصاری صاحب اور لیکچرر محترمہ تحسین شیخ بھی تھیں ۔بی اے سالِ آخر میں ممبئی یونیورسٹی کے ذریعے تفویض کیے گئے پروجیکٹ کے تحت ڈراما نگار اقبال نیازی کے فن اور شخصیت پر مکمل و مبسوط پروجیکٹ کی تیاری ان طالبات کے ذمّہ تھی ۔ پروفیسر صادق نے اقبال نیازی صاحب کا تعارف کرایا،اور کہا کہ’’ یہ امر باعثِ مسّرت ہے کہ اقبال نیازی صاحب کے فن اور شخصیت پر مسلسل تین برسوں تک ممبئی یو نیورسٹی سے بی اے کے طلبہ کے لیے پر و جیکٹ مختلف کا لجوں نے تیار کروائے ہیں ۔‘‘
محترمہ تحسین شیخ نے گل پوشی کی ، طالبات نے تحائف سے نوازا اور مسلسل تین گھنٹے تک صاحبِ اعزاز نے فن ڈراما کی باریکیوں ، اس کی سیاسی و سماجی اثرات و مضمرات پر سیر حاصل گفتگو کی اور طالبات نے بہت ہی جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے 
ڈراما کے فنّی ارتقائی منازل ، تخلیقی عمل اور کتابوں کی اشاعت ، اردو زبان و ادب کی صور تحال ، سیاسی و سماجی تناظر پر سوالات کیے ، جن کے
ا طمینان بخش جوابات اقبال نیازی نے دیئے انھوں نے کہا کہ ’’ آج بھی ڈراما کو ’’ ا چھوت ‘‘ سمجھنے والے اس فن کے اچھوتے پن سے واقف نہیں ، ڈراما تو شخصیت سازی ، اور بچے کے آ ل راؤ نڈ ڈیو لپمنٹ کا ایک بیحد پر اثر اور دلچسپ ذریعہ ہے ۔ ڈراما تدریسی عمل میں بھی ٹیچر کے لیے ایک کارگر ہتھیار ہے۔۔ انھوں نے کہا کہ فنِ ڈراما سے ہماری طالبات کی وا بستگی یا د لچسپی کا مطلب ہر گز یہ نہیں لیا جا نا چاہیے کہ وہ فلموں میں ،سیریلوں میں اداکاری کرنے نکل پڑیں گی۔مسلسل تین گھنٹوں تک اس مفید اور کار آمد گفتگو سے طالبات نے استفادہ کیا 
اور بہت خوشی اور گرم جو شی کے ساتھ صاحبِ اعزاز کا شکریہ ادا کیا ۔ اس مختصر سی ملاقات میں تمام طالبات نے جاتے ہوئے فنِ ڈراما کے تعلق سے پیدا ہونے والی دلچسپی اور شوق کا شدید اظہار کیااور صاحبِ اعزاز سے اردو کے اچھے اور معیاری ڈرامے دکھانے کی فرمائش کی۔
اخیر میں پروفیسر صادق انصاری نے حسنیٰ عبد الملک گرلز ڈگری کالج کی پرنسپل محترمہ نادرہ مسعود پیش امام کی جانب سے ایک تشکر نامہ جناب اقبال نیازی کی خدمت میں پیش کیا۔

او بی سی اسکالرشپ کے سلسلے میں سی سی آئی کی سرگرمیاں



مالیگاؤں ، ۲؍ دسمبر ، پریس ریلیز 
مہاراشٹر میں اقلیتی طلبہ کو حکومتی اسکالرشپ اسکیمات سے فائدہ دلانے کیلئے سرگرم تنظیم سی سی آئی نے آج وزیر اقلیتی امور اور نائب وزیر اعلی و وزیر اعلیٰ مہاراشٹر کو خط لکھ کر او بی سی ( OBC) اسکالرشپ اسکیم کے فارم کو آن لائن کر دینے سے ہونے والے نقصانات پر تشویش جتائی ہے۔ اس ضمن میں سافٹ وئیر کی بعض کمزوریوں کے پیش نظر OBCطبقہ کے لاکھوں مستحق طلبہ کو اسکالرشپ سے محرومی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سی سی آئی کے قومی کارگزار صدر پروفیسر عبدالمجید صدیقی کی قیادت میں مالیگاؤں کے معاملیدار ہرش گائیدھنی سے آج نمائندہ وفد نے ملاقات کرکے OBCاسکالرشپ کے حصول میں درپیش دشواریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ آج اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے طلبہ کو صرف اسلئے او بی سی اسکالرشپ سے محروم کیا جارہا ہے کہ انھوں نے چند سال قبل SSCکا فارم بھرتے وقت مقررہ ذات کے کالم میں OBCکا اندراج نہیں کروایا تھا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جس وقت طالب علم SSCامتحان میں شریک ہوتا ہے اس وقت اس کے پاس ذات پات کا کوئی سرٹیفکٹ موجود نہیں ہوتا اس لئے جان بوجھ کر وہ ذات کے کالم میں اپنی کاسٹ کو واضح نہیں کرتا ۔ عام طور پر ہمارے ملک میں ذات کے دستاویز SSCپاس کرنے کے بعد میں بنوائے جاتے ہیں ۔ البتہ سی سی آئی نے رواں تعلیمی سال میں SSCفارم بھرتے وقت ذات کے کالم میں OBCیا دیگر ذاتوں کے اندراج کی ’’ بیداری مہم‘‘ چلائی ہے ۔ لیکن چند سال قبل جن طلبہ نے SSCپاس کرلیا ہے ۔ ان کے پاس آج OBC سرٹیفکیٹ موجود ہونے کے باوجود انھیں صرف اس لئے اسکالرشپ سے محروم رکھا جارہا ہے کہ انھوں نے SSCفارم میں اس کا خلاصہ نہیں کیا تھا ۔ اسی طرح کی فیڈنگ والے سافٹ وئیر کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں حقدار طلبہ کے اسکالرشپ فارم براہِ راست مسترد ہورہے ہیں ۔ اور ان میں مسلم طلبہ کی بہت بڑی تعداد ہے ۔ سی سی آئی نے حکومت مہاراشٹر سے درخواست کی ہے کہ سافٹ وئیر کی اس تیکنکی خامی کو فوراً دور کرلیا جائے ۔ اور ممکن ہو تو آن لائن فارم کے ساتھ ساتھ کاغذی فارم بھی قبول کئے جائیں ۔ تاکہ کوئی بھی حق دار طالب علم محروم نہ رہے۔ دیگر مطالبات میں کہا گیا کہ تحریری عریضہ فارم کے ساتھ ذات کے سرٹیفکٹ کی مستند کاپی قبول کی جائے اور اس سلسلے میں سماج کلیان محکمہ کو فوری طور پر ہدایت جاری کی جائے ایک اور مطالبہ یہ کیا گیا کہ اسکالرشپ کے آن لائن سسٹم کیلئے بنائے گئے سافٹ وئیر میں بہت سارے کالجوں کا اندراج تک نہیں ہے۔ ایسے کالجوں کے طلبہ بھی محرومی کا شکار ہورہے ہیں ۔ لہذا اسکالرشپ کے ضمن میں ان تمام کمزوریوں کو فوری طور پر دور کرلیا جائے ۔
اس سلسلے میں آج حکومتی نمائندوں سے ملنے والے وفد میں پرنسپال عبدالمجید صدیقی ، پرنسپال عتیق شعبان ، اشفاق عمر ، انعام وحید ، اخلاق بالے مقادم ، ڈاکٹر مجیب الرحمن شامل تھے ۔ وفد نے این سی پی کے مالیگاؤں صدر حاجی محمد یوسف سے بھی اس موضوع پر تبادلۂ خیال کیا۔ اوران کی رہنمائی میں چند روز کے بعد وزیر اعلی ، نائب وزیر اعلیٰ اور محکمہ اقلیتی امور کے ذمہ داران سے ملاقات کیلئے وفد ممبئی بھی پہنچے گا۔ اس ضمن میں تمام متعلقہ وزیر اور محکمہ جاتی سکریٹریز کو محضر نامے روانہ کئے گئے ہیں ۔ 

سمجھ سمجھ کی باتیں


ہر انسان کے اندر کوئی نہ کوئی شوق ہوتا ہے میرے ایک عزیز دوست کو جانور پالنے کا بہت شوق ہے۔ جانور پالتے پالتے اُن کی باتیں بھی سمجھنے اور ان کو سمجھانے لگا۔ ایک دن مضافات میں اس کے گھر پر گیا تو کھانا کھانے کے بعد چہل قدمی کرتے کرتے ہر ملنے والے جانور سے بات کرنے لگا۔ پہلے اس نے بلی سے پوچھا تو کہاں گئی تھی تیرے بچے اِدھر اُدھر بھٹک رہے تھے۔ ایک تو گاڑی کے نیچے آتے آتے بچا ہے بلی بولی کے میں خود گاڑی سے مرتے مرتے بچی ہوں۔ پنجرے میں بند طوطے سے کہا کھانا کھایا کیا طوطے نے کہا تم نے کھایا کیا، میرے کو بند کرکے خود آزاد گھوم رہے ہو۔ پھر اس نے گلہری کو اپنے پاس بلایا پوچھا کیسی ہو ، گلہری نے کہا بچے کلر کا برش بنانے کے لیے میرا بال توڑتے ہیں ان کو منع کرو نہیں تو میں بہت جلد ٹکلی ہوجاؤ ں گی۔ پھر ایک مرغی دربے میں بیٹھی تھی میرے دوست نے کہا آج دانہ چوگنے نہیں گئی، مرغی نے کہا دربے سے باہر نکلو تو انڈے چوری ہوجاتے ہیں۔ تھوڑا آگے بڑھے تو کبوتر بازی کا مقابلہ ہونے والا تھا آسمان پر اڑنے والے کبوتر سے اس نے پوچھا کیا تم کو زمین پر گرنے کا ڈر نہیں ہوتا کبوتر نے جواب دیا انسان نہیں ہوں جو ذرا سی بلندی پر اکڑ جاؤں میں چاہے کتنی بلندی پر ہوں میری نگاہیں زمین پر ہی رہتی ہے۔ تھوڑا آگے بڑھے تو ایک تندرست بکرا دیکھائی دیا میرے دوست نے بکرے سے پوچھا دس دن سے دیکھائی نہیں دے رہے تھے کہاں تھے بکرے نے کہا میرے مہربان مالک نے مجھے سیر کرانے کے لیے ممبئی لے گیا تھا وہاں بہت سارے میرے بکرے بھائی تھے۔ بہت بھیڑ تھی انسان لوگ ہمارا دانت گن رہے تھے چلا کر دیکھ رہے تھے ، خوبصورت شہر خوبصورت سڑکیں فلائی اوور اور رات کو شہر روشنی سے جگمگ جگمگ کررہا ھتا دس دن تک لوگ مجھے دیکھتے رہے میرا اور روکنے کا من کررہا تھا مگر مالک نے مجھے واپس لے آیا کیا خاص دن تھا میرے دوست نے کہا بیٹا تیرا مالک لاکھ روپیہ مانگ رہا ہوگا، بکراعید تھی بکرے کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہنے لگا اتنا اچھا موقع اللہ کی راہ میں قربان ہونے کا ہاتھ سے نکل گیا۔ پھر ہمیں ایک کتا دکھائی دیا میرے دوست نے کتے سے کہا ’’لوگوں سے تیرے سے بہت شکایت ہے تو رات میں بھونکتا ہے، فقیروں پر بھونکتاہے اور دیوار پر پیشاب کرتا ہے۔ کتنے نے جواب دیا رات میں اس لیے بھونکتا ہوں کہ اے غفلت میں سونے والوں جاگو خدا کی عبادت کرو، فقیروں پر اس لیے بھونکتا ہوں کہ محنت کرو روزی حاصل کرو، اللہ سے مانگو بندوں سے نہیں۔ دیوار پر اس لیے پیشاب کرتا ہوں کہ اللہ کا بندہ زمین پر سجدہ کرتا ہے کہیں میرے پیشاب سے ناپاک نہ ہوجائے۔


آصف پلاسٹک والا
امبریلا ہاؤس، حلقہ احباب مارگ،
عرب مسجد ، مدن پورہ، ممبئی۔11
موبائل: 9323793996