Thursday, March 1, 2012

نپولین تم ہار گئے

عرب انقلابات کے تناظر میں نیو یارک ٹائمس کے ایک تبصرہ نگار اسکاٹ شانے نے لکھا ہے کہ پچھلی دو دہائیوں سے القاعدہ کے لیڈروں نے اپنی پر تشدد تحریک کے ذریعے جن مغرب نواز عرب ڈکٹیٹروں کو بے دخل کرنے کے لئے جہاد بلند کر رکھا تھا،عرب عوام پر امن احتجاج اور مظاہروں کے ذریعے انہیں اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا اور پھر سوال اٹھایا ہے کہ کیا عربوں کے اس عوامی انقلاب کی وجہ سے القاعدہ کی تحریک اپنا اعتبار کھو دے گی ؟مصنف نے جارج ٹاؤن یونیور سٹی سے منسلک اور سی آئی اے کے ایک سابق مشیر پال آرپلر کا خیال ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ انقلاب القاعدہ کے لئے اس لئے بھی تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ اب عرب نوجوانوں کو دہشت گردی کی متبادل تصویر نظر آنے لگی ہے۔
کیا مغربی میڈیا ان کے سیاست دانوں اور دانشوروں کا اپنا حقیقی خیال ہے یا پھر جس افسانے کو وہ مکمل کرنے سے قاصر رہے ہیں اسے ایک خوبصورت موڑ دیکر حالات پر چھوڑ دینے کیلئے مجبور ہیں ۔جو لوگ ماضی اور حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں ان کا خیال ہے کہ اشتراکیت کے دم توڑ نے اور سوویت یونین کے منتشر ہوجانے کے ساتھ ہی مغرب میں اخلاقی و روحانی بحران کا ایک نیا دور شروع ہوا۔مسیحیت نے تجدید کاری کے نام پر ایک نئے اخلاقی نظام کو عام کرنے کی کوشش تو کی لیکن مغربی مفکرین ،مبصرین آج بھی یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ ان کے اجتماعی و معاشی زندگی کے بنیادی اصول درست ہیں یا نہیں؟ اور یہ سچ بھی ہے اور دکھائی بھی دے رہا ہے کہ مغرب کے اخلاقی اور روحانی بحران نے انہیں معاشی زوال میں بھی قید کر دیا ہے ،اس لئے موجودہ لبرل جمہوری سرمایہ دارانہ نظام کیلئے دنیا پر اپنی بالادستی قائم کرنا تو دور کی بات خود جزیرہ یوروپ میں اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے اور اب ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ اخوان المسلمون اور القاعدہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیں ۔جبکہ دونوں کے بنیادی نظریات میں اول دور سے یہ بات شامل رہی ہے کہ عرب حکمران یا تو اقتدار چھوڑ دیں یا شرعی قوانین کا نفاذ کریں ۔اسلامی دنیا کے کچھ علماء دین کا بھی خیال یہ ہے کہ متشدد اسلامی فکر کسی زمانے میں کامیاب نہیں ہوئی جیسا کہ العربیہ ٹی وی کو ایک خصوصی انٹر ویو دیتے ہوئے مصر کے مفتی اعظم اور ممتاز عالم دین الشیخ علی جمعہ نے کہا ہے کہ سخت گیر اسلامی شریعت کی دنیا میں اس وقت کوئی مثال موجود نہیں ۔القاعدہ اور طالبان اسلام کے سخت گیر خیالات کے حامل گروہ تھے لیکن اب وہ بھی ختم ہو چکے ہیں اور انہیں بھی یہ اندازہ ہو گیا ہوگا کہ انہوں نے جو راستہ اختیار کیا تھا غلط تھا ۔اس کے برعکس عرب کے مشہور عالم دین ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اپنی کتاب ’’غلبہ اسلام کی بشارتیں میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں ایسی ہستیوں کو پیدا کیا ہے جو دین کی تجدید و اصلاح کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ دعوت و تبلیغ کے ذریعے دینی و اصلاحی تحریکات کی کاوشیں صدا بصحرا ثابت ہوئیں یا ان کی حیثیت راکھ کے ڈھیر میں پوشیدہ کسی چنگاری کی رہی ہے بلکہ مغرب و مشرق میں ان تحریکوں نے جہاں لوگوں کے اندر اصلاحی بیداری کی لہر پیدا کی ،جہادی سطح پر بھی اصلاحی بیداری نے اپنے وجود کو منوالیا ہے۔افغانستان میں اس نے سوویت یونین پر غلبہ حاصل کرلیا ۔بوسنیا ہرزے گووینا میں وحشی صربوں کو پست ہونا پڑا ۔تحریک انتفاضہ اور اس کے جیالوں نے اس صہیونی حکومت کے دانت کھٹے کر دیئے جس کے بارے میں یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ اسے کوئی جھکا نہیں سکتا اور اس کے حصار کو کوئی توڑ نہیں سکتا۔
جو لوگ تاریخ کے طالب علم ہیں وہ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ عربوں میں جو اسلامی بیداری اور تبدیلی کا رجحان دکھائی دے رہا ہے یہ اچانکبو عزیزی کی چیخ و پکار یا ایک مہینے یا دہائی کے پر امن احتجاج کی بدولت نہیں واقع ہوا ہے بلکہ اس انقلاب کے لئے بہت سی شخصیتوں اور تحریکوں نے بے مثال قربانی پیش کی ہے ۔جسکی تازہ مثال اخوان المسلمون ہے،جسے شہید حسن البناء نے مصر میں قائم کیا تھا اور انہوں نے متشدد اور معتدل اسلامی فکر کی بحث میں الجھے بغیر سیاست کے میدان میں خالص اسلام کے فلسفہ انصاف کی نمائندگی کی۔مصر میں انکے علاوہ سید قطب شہید ،شیخ محمد غزالی ،زینب الغزالی اور ہندوستان میں اسمعٰیل شہید،مولانا حمید الدین فراہی،ڈاکٹر علامہ اقبال اور سید ابو الا علیٰ مودودی اسی مکتبہ فکر کے پر وردہ ہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے بعد کے دور میں سر سید احمد خان ،ابو لکلام آزاد اور مولانا شبلی کے مقابلے میں ان شخصیات کو متشدد اسلامی فکر کا ہی حامل سمجھا جاتا تھا۔حالانکہ مغرب کی بے پناہ وسائل اور فوجی قوت کے سامنے تحریکات اسلامی کے ان مجاہدین کی جدوجہد اور قوت و وسائل میں زمین و آسمان کا فرق تھا باوجود اس کے ان مجاہدین کو صرف مغرب کے خلاف اپنی تحریروں اور تقریروں کی وجہ سے وقت کے کمال پاشاؤں کے عقوبت خانوں کی شدت کو برداشت کرنا پڑا۔ آج کی عافیہ صدیقی الزام ہے کہ اس نے امریکی فوجیوں پر گولی چلانے کی کوشش کی تھی ۔مگر زینب الغزالی کو صرف اس لیئے جمال عبد الناصر کے طلم و تشدد کا شکار ہونا پڑا کیوں کہ انہوں نے اپنے حکمرانوں سے صرف آزادی اظہار رائے کا حق مانگا تھا ۔مگر اللہ کے ان بندوں نے مشکل سے مشکل حالات میں بھی نبوی تحریک کی مشعل کو بجھنے نہیں دیا ۔اقبال اسی جذبے کو دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا ......کہا ہے مجھ سے یہ قبطیوں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
ایک ایسے وقت اور حالات میں جبکہ مغربی تہذیب اپنی سائنس اور ٹکنالوجی کی طاقت سے پوری دنیا پر اپنے غلبے اور بالا دستی کا اعلان کر چکی ہو اس کے زوال اور انحطاط کی پیشن گوئی کرنا آسان نہیں تھا لیکن ایسے نازک اور شکشتہ حالات میں اقبال ہی نے یہ کہنے کی جرات کی کہ
تمہاری تہذیب خود اپنے خنجر سے خود کشی کریگی......جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
یعنی نفس پرستی اور خود پرستی اور خود غرضی پر مبنی مادہ پرست تحریکوں کی مثٓل تو خود قرآن نے بھی کلمہ خبیثہ سے دی ہے جسکی جڑیں زمیں میں اس طرح پیوست ہیں کہ اپنا بوجھ بھی سنبھال نہیں پاتیں ۔محمد اسد بیسویں صدی کے ایک ایسے ہی مفکر گزرے ہیں جنہوں نے اپنی کتاب’’ الاسلام فی مفترق الطریق‘‘میں اپنے قرآنی مطالعے کی بنیاد پر ۱۹۳۵ میں ہی دوسری عالمی جنگ کی پیشن گوئی کردی تھی اور یہ بھی لکھا کہ یہ جنگ مغربی تہذیب کی حامی دو مختلف مادہ پرست قوتوں کے درمیان ہوگی اور پھر اس کے بعد کمیونزم کا زوال بھی یقینی ہے۔جس کے بعد تحریکات اسلامی کے کا رواں کا بہت ہی تیزی کے ساتھ اپنے عروج کی طرف بڑھنا شروع ہو جائے گا ۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کی صورت میں کس طرح مغرب کی لبرل تہذیب آپس میں ہی ٹکرا کر خود اپنے لیئے تباہی کا سامان مہیا کرتی ہیں ۔لیکن اسکے باوجود مغرب پوری طرح ختم ہونے کی بجائے دوبڑی فوجی قوت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔اور دونوں ایک دوسرے پر اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیئے تین دہائیوں تک بر سر پیکار رہے۔بالآخر ۱۹۹۰ میں اشتراکیت کے دم توڑنے اور سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد مغرب نے امریکہ کی قیادت میں بہت ہی زور شور سے نیو ورلڈ آرڈر کا اعلان تو کیا مگر اب اس کا مقابلہ اور ٹکراؤ ایک بار پھر ایک ایسی تہذیب اور عقیدے سے تھا جس نے انسانی دنیا پر تقریباً ایک ہزار سال تک اپنے عروج و زوال کی تاریخ رقم کی ہے۔دنیا نے دیکھا کہ ابھی امریکہ اور اس کے اتحادی روس کی بالادستی کو پوری طرح ختم بھی نہیں بھی نہ کر پائے تھے کہ ۸۰ ؁ ء کی دہائی میں ایران کے اسلامی انقلاب نے صدائے وحدہ لا شریک کا اعلان کر دیا ۔۱۹۹۵ کے دوران افغانستان میں طالبان کا غلبہ اور پھر ۱۱ ؍ستمبر ۲۰۰۱ میں چند گمنام طیاروں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت کو ٹھوکر مارکر نیو ورلڈ آرڈر کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی امریکہ نے اس کا الزام اسامہ بن لادن اور انکی تنظیم القاعدہ پر عائد کرتے ہوئے ایک ایسے علاقے میں اپنی اور اپنے اتحادیوں کی فوج کو مرنے کیلئے بھیج دیا جسے تاریخ میں دنیا کا دوسرا جزیرہ برموڈہ کہا جاتا ہے۔جہاں پر ایک بار داخل ہونے کے بعد انسانی دماغ اور ٹکنالوجی کی ساری طاقت کام کرنا بند کر دیتی ہے۔ان دس سالوں میں افغانستان کے ملاؤں اور بنجاروں کی فوج نے امریکہ کی جو حالت کی ہے امریکی عوام نہ صرف جارج بش کے نام سے نفرت کرنے لگے ہیں ۔موجودہ صدر ابامہ کو اپنی چال ڈھال اور آواز کو بدلنے پر مجبور ہونا پڑا ۔تاریخ گواہ ہے کہ جس نپولین نے مصر میں داخل ہو کر فاتحانہ انداز میں یہ کہا تھا کہ ’’اے صلاح الدین ایوبی دیکھو ہم ایک بار پھر تمہاری سرحدوں میں داخل ہو چکے ہیں ، اس بار ہم واپس جانے کے لئے نہیں آئے ہیں کیوں کہ اس بار ہم نے ایسے آتشیں ہتھیار جمع کر لئے ہیں جس کا مقابلہ کرنا تمہاری اولادوں کی طاقت کے باہر ہے ۔اسی ملک میں سپر پاور کا حکمراں عالم اسلام سے مخاطب ہوکر اپنی اور دنیا کی سلامتی کی اپیل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مسلمانوں ہم تمہارے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں ۔ہم کسی تہذیب پر نہ تو اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اسلامی تہذیب کے درمیان کسی طرح کی روکاوٹ پیدا کرنے کا عزم رکھتے ہیں ۔ہم عراق سے بہت جلد اپنی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کر چکے ہیں اور افغانستان میں اگر اعتدال پسند طالبان سامنے آتے ہیں تو ان سے گفتگو کرنے کے لئے بھی تیار ہیں ۔سوال یہ ہے کہ وہ لوگ جو عورتوں کے حجاب اور مردوں کی داڑھی تک کو مغرب کے لئے خطرہ سمجھتے تھے وہ لوگ اعتدال پسند طالبان اور اخوا ن المسلمون کے سیاسی نظرئے کو قبول کرنے کو تیار کیوں ہیں ؟اگر سخت گیر طالبان منظر عام پر نہ آئے ہوئے ہوتے اور مغرب کو کسی طرح کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا ہوتا ۔امریکی معیشت کے ڈھانچے میں دراڑ نہ واقع ہوئی ہوتی تو کیا پھر بھی نیو ورلڈ آرڈر کے علمبرداروں کی چال ڈھال اور زبان میں وہی فرق واقع ہوا ہوتا جو ہم دیکھ اور سن رہے ہیں؟ سوال یہ بھی نہیں کہ عرب میں انقلابات کے آنے کا طریقہ کار کیا ہے ،سوال یہ ہے کہ نپولین کو شکشت کیو کر ہوئی؟؟
عمر فراہی۔موبائل،09699353811

Meeting and Felicitation of Dr. Gulam Anjum Yahya (Dean, Hamdard University)


دینی بیداری پیدا کرنے کے لئے مختصر مدتی کورس کی ضرورت ہے ۔
علیمی مو و منٹ کی استقبالیہ نشست میں پروفیسر غلام یحیٰ انجم کا اظہار خیا ل
موجودہ زمانہ مشینی زندگی کا تیز رفتار زمانہ ہے سائنس و ٹکنالوجی نے دنیا کو تقریباً اپنی گرفت میں لے لیا ہے اس بھاگ دوڑ کے زمانے میں بھی عوام الناس کا اپنے خالق حقیقی کی طر ف متوجہ ہونا اور عبادت وریاضت میں مشغول ہوکر اپنے رب کو راضی کرنے کی تگ ودو کرنا یقیناًاس دور کے اہم تقاضوں میں سے ایک ہے لہذا موجودہ زمانے کے اہم وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علماء ربانین کو بھی چاہیئے کہ ان بندگان حق کی اس انداز میں تربیت کریں کہ ان کا رشتہ زندگی کے تمام مراحل میں ان کے رب سے مربوط رہے ان باتوں کا اظہار خیال پروفیسر غلام یحیٰ انجم (ڈین فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز اور سوسل سائنسیزہمدرد یونورسٹی دہلی ) نے کیا ۔
آپ نے مزید فرمایا کہ اس کی کیا شکلیں ہیں یا کیا ممکنہ شکلیں ہوسکتی ہیں ۔ اس موضوع پر علما ء کو سر جوڑ کر سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سا بہتر طریقہء کار ہوگا جس میں کم سے کم اوقات میں مساجدومدارس کے پلیٹ فارم سے بندگان حق کو زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کیا جاسکے ۔ اس سلسلے میں مورخہ ۲۹ فروری بعد نماز ظہر علیمیہ آفس مصطفی بازار ممبئی نمبر ۱۰ میں پروفیسر غلام یحیٰ انجم کی آمد پر علیمی موومنٹ کے زیر اہتمام ایک مشاورتی مٹنگ۔ علیمی موومنٹ کے سرپرست اعلیٰ مولانا معین الحق علیمی صاحب اور صدر مولانا محمد عرفان علیمی کے علاوہ مولانا وارث جمال قادری (صدر آل انڈیا تبلیغی سیرت ممبئی ) جناب عامر ادریسی ( صدر آل انڈیا مسلم یوتھ موومنٹ ممبئی ) زبیر رضوی ( انجمن فیض رضا ممبئی) کی موجودگی میں ہوئی ۔

پروفیسر غلام یحیٰ انجم صاحب ممبئی یونورسٹی میں منعقد ہونے والے سیمنار میں شرکت کی غرض سے تشریف لائے ہوئے تھے ۔ اس بھاگ دوڑ کی دنیا میں جب کہ کسی کے پاس مذہبی کتابیں پڑھنے اور علما ء کے پاس بیٹھنے کا وقت نہیں کس طرح سے دینی معلومات فراہم کی جا ئے ۔ اس موضوع پر علماء نے سنجیدگی سے غور کیا نیز مختلف تجاویز زیر غور آئیں اور ابھی اس سلسلے میں کئی ایک مٹنگ کی ضرورت ہے ۔ تاکہ مناسب حل تلاش کیا جاسکے ۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا مجھے امید ہے کہ علاء اکر ام کے مشوروں سے مستقبل میں کوئی نہ کوئی حل اس کے بابت ضرور تلاش کیا جاسکے گا۔ انشاء اللہ